یوکرین تنازعہ، یو این کی ذمہ داری

اقوام متحدہ کا قیام شاید اسی لئے وجود میں لایا گیا ہے کہ یہ اقوام کے درمیان تنازعات کو پرامن طور حل کرنے کی راہ نکالے اور بات جنگ و جدل تک نہ پہنچے۔اس وقت یوکرین اور رو س کے درمیان جو تنازعہ جنگ کی صورت اختیار کرگیا ہے اگر اقوام متحدہ اس کا بروقت نوٹس لیتا تو شاید اس جنگ وجد ل سے بچا جاسکتا تھا۔ امریکہ اور ا س کے اتحادیوں نے یوکرین کو ساتھ ملا کر ایک طرح سے روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی جو کوششیں جاری رکھی تھیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ جلدیابدیر یہاں پرجنگ کے شعلے بڑھک اٹھیں۔ اور وہی ہوا۔ اب دیر آئد در ست آئد کے مصداق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل  انتونیو گوٹیرش آئندہ ہفتے روس اور یوکرین کا دورہ کریں گے۔ کریملن کے مطابق گوٹیرش ماسکو میں منگل کو روز پہلے روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف اور پھر روسی صدر ویلادیمیر پوٹن سے ملاقات کریں گے۔ بعد ازاں جمعرات کو کییف میں ان کی یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی سے بھی ملاقات متوقع ہے۔ اقوام متحدہ کے چیف ان رہنماؤں سے ملاقاتوں میں فوری طور پر جنگ روکنے اور عام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے پر بات چیت کریں گے۔ کییف اور ماسکو کے دورے کا مقصد یوکرین میں جلد سے جلد قیام امن کو بحال کرنا ہے، مگر دیکھا یہ جارہاہے کہ اس وقت ہی کسی مسئلے کے حل کی طرف پیش رفت کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں جب وہ مسئلہ انتہائی گھمبیر صورت اختیار کرجاتا ہے۔ اب بھی اگر روس اور یوکرین کے تنازعے کو کوئی حل نکلتا ہے تو یہ بہت اچھی خبر ہوگی کیونکہ اس جنگ کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہورہے ہیں اور اس کے  نتیجے میں تیل اور گیس کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ گندم کی قلت کا بھی عالمی منڈی میں سامنا ہے جس سے ترقی پذیر ممالک زیادہ متاثر ہورہے ہیں جو روس یا یوکرین سے گندم درآمد کرتے تھے۔اب ان ممالک کو غذائی قلت کا سامناہے اور یہاں پر معمولات زندگی متاثر ہونے لگے ہیں۔ اگر اس وقت اقوام متحدہ کا ادارہ مداخلت کرتا کہ جب روس نے امریکہ کو تنبہیہ کی تھی کہ وہ یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوششیں تر ک کر دے تو شاید بات یہاں تک نہ پہنچتی۔ اب ایک اور عالمی تنازعے کی شروعات کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے اور یہ چین اور امریکہ کے درمیان جزائر سولومن میں چین کے فوجی اڈے کے امکانات کے پیش نظر ہے۔امریکہ نے بحرالکاہل میں چینی فوجی اڈے کے قیام کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ واشنگٹن حکومت کا یہ بیان چین اور جزائر سولومن کے مابین حال ہی میں طے ہونے والے ایک سکیورٹی معاہدے کے بعد سامنے آیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے مطابق اس معاہدے کے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی علاقائی سلامتی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے اور فوجی اڈہ قائم کیے جانے پر امریکہ سخت ردعمل ظاہر کرے گا۔ ادھر جزائر سولومن کی حکومت نے کہا ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ امریکہ پہلے ہی بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ کی توسیع پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے‘ دیکھا جائے تو چین نے معاشی اور دفاعی دونوں شعبو ں میں جس طرح امریکہ کو چیلنج کیا ہے وہ اس کیلئے پریشانی کا باعث ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ چین ا سکے مقابلے پر آئے کیونکہ امریکہ خود کئی شعبوں میں چین پر انحصار کر رہا ہے اور چین جس طرح بڑے پیمانے پر امریکی منڈی میں اپنی مصنوعات بھیج رہاہے اس نے چین کی طاقت کو ثابت کیا ہے۔