مسجد اقصیٰ کی بے حر متی 

رمضا ن المبارک کے مہینے میں مسجد اقصیٰ کے اندر اسرائیلی پو لیس کے ہا تھوں ربڑ کی گو لیاں برسانے اور لا ٹھی چارج کے اندوہنا ک واقعے میں 152روزہ دار فلسطینی مسلما ن زخمی ہو ئے زخمیوں میں بعض کی حا لت تشویشنا ک بتا ئی جا تی ہے۔ اسرائیلی پو لیس کو فو ج کی کمک اور مدد بھی حاصل تھی فلسطینی نہتے نما زی تھے ان کو اسرائیلی پولیس کے حملے کا پیشگی اندازہ تک نہیں تھا‘ مسجد اقصیٰ مسلما نوں کے مقدس مقا مات میں شامل ہے نبی کریمؐ نے معراج کی شب مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی اور انبیا ء کی اما مت کا فریضہ انجا م دیا، قرآن پا ک میں اس واقعے کا ذکر ہوا ہے اور مسجد اقصیٰ کا نا م بھی آیا ہے ہجرت کے بعد بھی تحویل قبلہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے تک مسلما نوں کا قبلہ مسجد اقصیٰ کی طرف تھا اس حوالے سے اس کو قبلہ اول بھی کہا جاتا ہے‘ اس مسجد کے ساتھ ہماری عقیدت بھی وابستہ ہے جذباتی اور ایما نی وابستگی کا معا ملہ بھی کسی سے پو شیدہ نہیں ما ضی میں جب بھی صیہونی ظا لموں نے مسجد اقصیٰ کی بیحر متی کا ارتکاب کیا پا کستان میں اس پر شدید ردعمل سامنے آیا، عوامی سطح پر بھی زبردست احتجا ج ہوا یہاں تک کہ  امریکہ اور اقوام متحدہ تک ہماری احتجا ج کی آواز پہنچ گئی صیہو نی ظا لموں کو دنیا کے غیض و عضب کا سامنا کرنا پڑا امریکہ کوا س پر بیان دینا پڑا اور اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیل کی مذمت کی گئی۔ اسرائیلی ظالموں کو شکا یت ہے کہ فلسطینی انہیں پتھر ما رتے ہیں فلسطینی اپنے دشمن کو پتھر نہ ماریں تو کیا کریں اسی ہفتے جمعہ کے روز سویڈن کے شہر اوری بیرو (Oriberu) میں دائیں بازو کی انتہا پسند جما عت کے جنونی کارکنوں نے قرآن پا ک کی بے حر متی کی کو شش کی اس کے خلاف سٹاک ہوم سمیت متعدد شہروں میں مسلما نوں اور انتہا پسند  سفید فاموں کے درمیان جھڑپیں ہو ئیں ان جھڑپوں میں دونوں طرف سے درجنوں لو گ زخمی ہوئے جبکہ پولیس کی تین گاڑیوں کو بھی آگ لگا ئی گئی۔حقیقت یہ ہے کہ عالمی اداروں پر جن ممالک کا غلبہ ہے وہ تو اس معاملے میں دلچسپی لینے سے رہے، جبکہ اسلامی ممالک کو اس حوالے سے منظم اور مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اسلامو فوبیا کے زیر اثر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے بلکہ یہ سلسلہ تیز ہواہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالم اسلام اس حوالے سے موثر اور عملی اقدامات کرے اور اپنے قدرتی وسائل کو یکجا کرکے معاشی طاقت کے ذریعے ان ممالک کو پیغام دینا چاہئے کیونکہ یہ ممالک طاقت کی زبان کو ہی سمجھتے ہیں اور اس وقت ان ممالک کی بات سمجھی اور سنی جاتی ہے جن کے پاس معاشی طاقت ہے۔عالم اسلام اس حوالے سے کسی سے کم نہیں تاہم اس قوت کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔اگر مسلمان ممالک معاشی اور دفاعی دونوں شعبوں میں ایک ہو کر پالیسی اپنائیں اور یورپی یونین کے طرز پر اسلامی ممالک ایک لڑی میں اپنے آپ کو پروئیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس طرح کے واقعات پیش آنے کا سلسلہ رک جائے۔