کالم کتنی دیر میں لکھا جائے

کلاس میں سٹوڈنٹ سوالات کرتے رہتے ہیں ان کو ہماری کالم کاری کے بار ے میں تجسس ہوتا ہے کالم کیا ہوتا ہے کیسے لکھا جاتا ہے۔کیا میں بھی کالم لکھ سکتا ہوں۔ آپ کالم کتنی دیر میں لکھتے ہیں۔کالم لکھنے کے لئے کون سا ٹائم مخصوص ہونا چاہئے۔کالم کا مواد کہاں سے لاتے ہیں۔ کیا کالم ہاتھ سے لکھتے ہیں یاکمپیوٹر کا استعمال کرتے ہیں۔کتنی دیر میں کالم کی کمپوزنگ مکمل ہوجاتی ہے۔ان کے سوالوں کے جوابات جیسے تیسے دینا پڑتے ہیں۔کیونکہ وہ سیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ پھر کالم کا ٹاپک تو بی ایس اردو کے نصاب میں بھی کسی نہ کسی طرح داخل ہے۔کہاکالم لکھنے کیلئے تین چیزیں تو ابتدائی طور پر انتہائی ضروری ہیں۔ پہلے تو کالم کیلئے مواد کی تلاش۔ اس کے بعد اس مواد کو ایک حکمت عملی کے ذریعے ذہن میں کالم کا روپ دینا۔ اس کے بعد کمپوزنگ کا مرحلہ آتا ہے۔جو لکھا ہے اس کو کمپیوٹر کی سکرین پر اتارنا ہوتا ہے۔بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔پھر روز کاکالم اپنی جگہ ایک گراں کام ہے۔پوچھتے ہیں کالم کتنے دنوں میں لکھ لیتے ہیں۔ خیر جتنے سٹوڈنٹ اتنے ذہن اور جتنے ذہن اتنی سوچیں۔میں نے کہا یہ تو فراغت پر منحصر ہے او راس وقت کی صورتِ حال پر دارومدار کہ کالم لکھنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔کیونکہ ایک بار قلم اٹھالیاتو ضروری ہے کہ کالم کا جب تک اینڈ نہ ہو اس دوران میں کسی چیز کی مداخلت نہ ہو۔ کیونکہ شعر کہنے میں بھی یہی چیز کاؤنٹ کرتی ہے۔ ذرا چڑیا کی آواز بھی ابھری توذہن سے خیالات گم ہو جاتے ہیں۔پھر سر پکڑ کر بیٹھ جاؤکہ وہ کیا بات تھی جولکھنے لگا تھا۔ کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتے کہ سنو جو میں لکھنے والا تھا وہ کیا تھا۔سو کہنے کی بات یہ ہے کہ خیالات کو ایک مرکز پر رکھنا او ر ان کو ترتیب دے کر ذہن کے اندر ہی ایک رو میں قطار در قطار لکھ لینا بڑے جان جوکھم کا کام ہے۔مگر اس صور ت میں اور بھی مشکل ہے کہ گھر میں پہلے سے شور ہو اور پھراوپر خیر سے مہمان بچے بھی گھر میں موجود ہوں۔اس کے لئے اگر فارغ وقت تلاش کیا جائے جو ضروری نہیں آدھی رات کے بعد حاصل ہو دن کو بھی یہ فرصت مل سکتی ہے۔مگر سب کچھ ماحول پر دارومدار رکھتا ہے۔صبح سحر خیزی میں کالم کی تحریر بھی ممکن ہے۔مگر جو لکھنے والا ہے اس کومعلوم ہوتا ہے کہ میں نے کالم کس وقت لکھنا ہے۔پھر کون سا وقت مجھے سُوٹ کرتا ہے۔ہر رائٹرکا اپنا ایک ٹائم ہوتا ہے۔ کالم لکھتے وقت بجلی کا ہونا اشد ضروری ہے۔اگر خیالات کا ایک دریا ذہن کے اندر بہہ کرموجیں مار رہا ہے کہ میں کاغذ کی ایک پرت پر اپنی موجوں کی بے قراری کے سمیت الفاظ کی شکل میں ساکت وجامد اور حنوط شدہ ہو جاؤں تو اس دوران میں ماحول میں کسی قسم کی ناہمواری ہو تو خیالات اپنی سی تیزی میں جیسے کہ آئے اسی برق رفتاری سے غائب ہو جاتے ہیں۔گھر سے باہر راستے میں ایک ٹاپک ذہن میں آیا پھرخوب مضبوط عنوان تھا۔ سوچا یہ مسئلہ کیسے بھول سکتاہوں۔مگر دو ایک دن کے بعد جب لکھنے لگاتو یاد نے ساتھ چھوڑ دیا۔سوچنے لگا وہ کون سا عوامی مسئلہ تھا جس کوضبطِ تحریر میں لانے کا سوچا تھا۔ مگر وہ یاد آئے تو تحریر میں آئے نا۔ وقفوں وقفوں سے کالم لکھنا درست نہیں۔ایک ہی نشست میں خواہ دو گھنٹے لگتے ہیں یا جتنے بھی لگیں کالم لکھا جائے۔اگر دن کو لکھ رہے ہیں توپیاروں کی مداخلت تو عین یقینی ہے۔مثلاًاچانک گھر کے مین گیٹ پر کسی نے گھنٹی کے بٹن کو مسلسل دبائے رکھا تو آپ نے ویسے بھی ڈسٹرب توہونا تھا۔ مگر اس موقع پر ڈبل اذیت کہ درازے پر تو کوئی ہے اس میں کوئی شک نہیں۔مگرتجسس ہوتا کہ آخر یہ کون ہے جو اتنی شدت اور نا شائستگی سے ڈور بیل بجا رہا ہے۔دروازے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ کوئی مہمان تھا جو ساتھ والے گھر جانا چاہتا تھا۔ ہمارے اور ان کے دروازوں کے ایک ہی ڈیزائن او رہم رنگ ہونے کی وجہ سے ان کو مغالطہ ہوا او ر انھوں نے ہماری گھنٹی بجا دی۔