تحریک انصاف کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی حکومت پر اِس قدر دباؤ بنانا ہے کہ اُسے مجبوراً آئندہ ماہ (مئی دوہزاربائیس) کے آخر تک عام انتخابات کروانا پڑیں اور اِس مقصد کیلئے اگرچہ کوئی اعلان سامنے نہیں آیا لیکن لاہور جلسے میں اشارتاً کہا گیا ہے کہ جلد کارکنوں کو اسلام آباد جمع ہونے کی ’کال‘ دی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اِس کا مطلب پورے ملک کا مواصلاتی نظام مفلوج کرنا ہے تاکہ حکومت کو مجبور کیا جا سکے۔ لاہور میں ”پاور شو“ کے بعد تحریک انصاف کی قیادت عید الفطر تک وقفہ لے گی اور عید کے فوراً بعد ”اسلام آباد“ کی جانب ’لانگ مارچ“ کی کال دیدی جائے گی عین ممکن ہے کہ اِس حکمت عملی میں یہ بھی شامل ہو کہ بڑے شہروں میں دھرنے دیئے جائیں۔ سڑکیں بند کر دی جائیں جو حکومت کیلئے اضافی پریشانی کا باعث بنے گی۔ اِس سلسلے میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے ایک حالیہ بیان سے رہنمائی لی جا سکتی ہے جن کا کہنا ہے کہ ”سیاسی بحران کے بعد اب پاکستان معاشی اور سماجی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک کو نئے انتخابات کی ضرورت ہے اور ہم اُسی طرف جارہے ہیں۔“کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن تحریک انصاف نے پارلیمان سے الگ ہونے کے بعد حکومت پر دو طرح سے دباؤ ڈال رکھا ہے۔ ایک تو جلسے کئے جا رہے ہیں‘ اور دوسرا چونکہ عوام کے منتخب 123 اراکین قومی اسمبلی نے بیک وقت استعفے دے دیئے ہیں اِس لئے پارلیمان میں حزب اختلاف کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھی ایک قسم کا دباؤ موجود ہے اور تیسرا دباؤ یہ ہے کہ معاشی حالات کے تناظر میں مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے جس سے حکومت کو عوام میں بے چینی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی ساری توجہ ملک کے بڑے شہروں پر مرکوز ہے۔ پشاور کراچی اور لاہور کے جلسے بظاہر کامیاب رہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ رہی ہے کہ یہاں احتجاجی تحریکیں بڑے شہروں ہی سے چلتی ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں رہنے والوں کے سیاسی نظریات اور جذبات پر بڑے شہروں کی رائے اثرانداز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک کی ترجیح بڑے شہر ہیں اور اگر ماضی میں تحریک انصاف کے دھرنے کو دیکھا جائے تو اِس کے بھی معاشی اثرات منفی تھے۔ ظاہر ہے کہ تحریک ماضی کی طرح 126 دن کا دھرنا کسی ایک ہی مقام پر نہیں دے گی کیونکہ ایسا کرنے سے خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا بلکہ وہ بیک وقت ایسے دھرنے اور احتجاج ملک گیر سطح پر کرنے کو ترجیح دے گی تاکہ فوری عام انتخابات کی صورت اپنا مقصد و مقصود حاصل کر سکے۔ تحریک کے مقابلے اتحادی حکومت کی ایک جماعت کی سندھ اور دوسری کی پنجاب میں مضبوط بنیادیں ہیں یعنی وہ بھی اپنی بھر پور طاقت کا مظاہرہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف نے وقت کم اور مقابلہ سخت کے فارمولے کے تحت جس طرح تیزی سے اقدامات کرنے شروع کئے ہیں وہ بھی اپنی جگہ اہم ہیں اور ان کے عوامی رائے پر دور روس اثرات مرتب ہوں گے۔ یعنی ایک طرح سے اس وقت سیاسی منظر نامے کے مطابق دونوں طرف سے امکانات کے دروازے کھلے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں ہوئے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دونوں مراحل کے نتائج میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک قریب وہی ہے جو سال 2018ء کے عام انتخابات کے موقع پر تھا۔ سندھ میں رواں برس جون میں بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں جس کے بعد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف سندھ اور پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے گی یا قومی عام انتخابات کے حق میں حکومت مخالف تحریک جاری رکھے گی؟ سال دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد تحریک نے پہلی مرتبہ جماعت اسلامی سے رابطہ کیا ہے جو ملک گیر تنظیمی ڈھانچہ رکھتی ہے اور پاکستان کی سب سے منظم سیاسی مذہبی جماعت ہے جواعتدال پر رہتی ہے۔ تحریک ماضی (دوہزارتیرہ کے عام انتخابات) میں بھی جماعت اسلامی کی اتحادی رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ آئندہ بلدیاتی اور قومی انتخابات کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ جاری رکھتے ہوئے نیا سیاسی اتحاد تشکیل دیا جائے۔ ایک ایسا اتحاد جس کے دروازے ہر سیاسی جماعت کیلئے کھلے ہوں اور یوں تحریک انصاف قومی سطح پر ایک علامتی ہی سہی لیکن سیاسی اتفاق رائے حاصل کر لے جسے حکومت میں رہتے ہوئے قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور سیاست ہو یا سماج‘ انسانوں نے ہمیشہ اپنی غلطیوں اور تجربات کی ناکامی سے اسباق سیکھے ہیں۔