سیاسی حالات اورعالمی منظر نامہ

اگلے پیر یعنی یکم مئی کو حسب معمول دنیا بھر میں انٹرنیشنل لیبر ڈے منایا جائے گا دنیا بھر کے مزدور ہر سال یہ دن ان مزدوروں کی یاد میں مناتے ہیں کہ جنہیں آج سے تقریبا ًایک سو سال قبل کارخانہ داروں نے انتظامیہ اور پولیس کے زور پر شکاگو میں ان کے احتجاجی جلوسوں پر گولی چلوا کر اس لئے قتل کروا دیا تھا کہ وہ اپنی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے یہ جو آج دنیا بھر بشمول پاکستان میں مزدوروں کو کسی نہ کسی حد تک جومالی مراعات حاصل ہیں یہ اسی جدوجہد کا نتیجہ ہیں ورنہ کارخانے دار مزدور سے روزانہ پندرہ پندرہ گھنٹے کام کرواتا اگر کارخانے میں کام کے دوران اس کا ہاتھ یا جسم کو کوئی حصہ مشین میں کٹ کرزخمی ہو جاتا تو اس کا علاج کروانے کے بجاے اسے کارخانے سے ہی نکال دیا جاتا، انٹرنیشنل لیبر ڈے کے بارے میں ان چند کلمات کے بعد آ تے ہیں ملک کے تازہ ترین سیاسی حالات کی جانب جہاں نئی حکومت وجود میں آئی ہے،دوسری طرف تحریک انصاف نے فوری الیکشن کا مطالبہ کیا ہے اب آگے کیا ہوتاہے، الیکشن کب ہوں گے اور کیا وہ ای وی ایم پر ہوں گے یا نہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ 
سر دست یہ اچھی خبر ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان غیراعلانیہ طور پر خطوط کا تبادلہ ہوا ہے جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ باخبر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر پیوٹن نے وزیر اعظم شہبازشریف کو ایک خط لکھا جس میں انہیں وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دی گئی۔ روس کے صدر نے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ افغانستان میں تعاون پر بھی بات کی گئی،صدر پیوٹن کے تہنیتی پیغام میں کہا گیا کہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات استوار کرنے کا عمل نئے سیاسی نظام کے تحت جاری رہے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے پیوٹن کو جوابی خط لکھا اور ان کے تہنیتی پیغام پر شکریہ ادا کیا،دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق بدلتی ہوئی علاقائی اور بین الاقوامی صف بندی کو مدنظر رکھتے ہوئے روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ طویل عرصہ قبل کیا گیا تھا۔اسلام آباد میں روسی سفارت خانے نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر 12 اپریل کو وزیر اعظم شہباز کو مبارکباد دی اور اس امید کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید آگے بڑھیں گے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کے پس منظر میں کہ ان کی حکومت سے بے دخلی روس سے متعلق ان کے موقف کی وجہ سے ہوئی جس نے خطے میں امریکی مفادات کو زک پہنچائی۔
دونوں ممالک کے بیچ حالیہ رابطہ اہمیت کا حامل ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کا مستقبل خطے کے ممالک یعنی چین اور روس کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس طرح جو پیش رفت ہوئی ہے وہ اطمینان بخش ہے اور اس سمت مزید ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی ہم اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں ضروری نہیں کہ روس کے ساتھ تعلقات امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی قیمت پر ہی استوار ہوں بلکہ متوازن خارجہ پالیسی کی صورت میں تمام ممالک کے ساتھ ایسے تعلقات رکھے جا سکتے ہیں کہ جہاں ہم زندگی کے مختلف شعبوں میں تعاون کے ذریعے ملکی معیشت کو مضبوط بنائیں۔