مالی خود مختاری: تصور اور حقائق

شنید ہے کہ ’سٹیٹ بینک آف پاکستان (مرکزی مالیاتی ادارے)‘ کو دی گئی خود مختاری واپس لی جائے گی اور مرکزی بینک کے گورنر رضا باقر کو نئی حکومت کی شکل میں سخت نقاد کا سامنا ہے یقینا سیاست دان ملک کی مالیاتی حکمت عملی اور مالیاتی اصلاحات کے بارے میں جو کچھ بھی بول رہے ہیں وہ یقینا سوچ سمجھ کر ہی بول رہے ہوں گے کیونکہ سٹیٹ بینک کی خود مختاری اُن چند اصلاحات کا حصہ ہے جو پاکستان ’آئی ایم ایف‘ کے اشارے پر کر چکا ہے اور موجودہ حکومت خود بھی ’آئی ایم ایف‘ سے مذاکرات میں ایسی جملہ تجاویز بصورت شرائط سے اتفاق کر رہی ہے‘ جس سے قومی مالیاتی خسارہ کم ہو۔ اگر مرکزی بینک خود مختار نہیں ہوگا اور وہ کسی بھی سیاسی حکومت کے اشاروں پر کام کرے گا تو اِس سے مہنگائی اور مالیاتی عدم توازن میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہوگا۔ 
ماضی کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ لہٰذا کچھ بھی بولنے اور عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کے بیج بونے سے پہلے سوچنا چاہئے کہ پاکستان جیسے قرضوں پر انحصار کرنے والے ممالک کے مرکزی بینک کی خود مختاری کا معاملہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں (آئی ایف آئی) کے شرائط و ضوابط سے جڑا ہوا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ جب تحریک انصاف نے چھ ارب ڈالر قرض کی اقساط بحال کرنے کیلئے ’آئی ایم ایف‘ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا تب آئی ایم ایف کی خواہش تھی کہ سٹیٹ بینک کو خود مختار ادارے کا درجہ دیا دے اور اِس مقصد کیلئے قانون سازی اُس قومی اسمبلی ایوان سے منظور کروائی گئی تھی جس میں مسلم لیگ نواز حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ سٹیٹ بینک ایکٹ 1956ء میں جو ترمیم کی گئی وہ غیر اہم نہیں تھی۔ حکومت نے ایک نیا قانون متعارف کرایا جسے سٹیٹ بینک (ترمیمی) ایکٹ 2021ء کا نام دیا گیا اور اِس سے مرکزی بینک کو وسیع خود مختاری دیدی گئی ہے۔
 ظاہر ہے کہ سٹیٹ بینک کو دی جانے والی خودمختاری کا تعلق مہنگائی کی شرح کم کرنے‘ قیمتوں کے استحکام اور ادارے کی جوابدہی یقینی بنانے کیلئے تھا لیکن آزاد ماہرین معاشیات نے سٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم کو صرف اِس زاویئے سے دیکھا کہ یہ ’آئی ایم ایف‘ کی شرائط پورا کرنے کیلئے کیا گیا تاہم یہ بات ذہن میں پیش نظر رکھنی چاہئے کہ کسی ملک کی معاشی خودمختاری کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کتنا مقروض ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ کی رائے ’آئی ایم ایف‘ پر حاوی ہوتی ہے کیونکہ ’آئی ایم ایف‘ ایک امریکی ہتھیار ہے‘ جس کے ذریعے امریکہ عالمی سطح پر اپنا اثرورسوخ بنائے ہوئے ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ’آئی ایم ایف‘ ازخود قرض دینے کے لئے کسی ملک سے رابطہ کرے بلکہ یہ قرض لینے کے خواہشمند ملک کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ’آئی ایم ایف‘ کے دروازے پر دستک دیتا ہے یا نہیں لہٰذا ’آئی ایم ایف‘ کی شرائط کو ظالمانہ یا غیرمنصفانہ کہنے کی بجائے اِس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آخر قرض لینے کی نوبت آتی ہی کیوں ہے اور قرض پر قرض لینے سے پاکستان کی اقتصادی مسائل کیوں حل نہیں ہو رہے!؟
معاشی بحران میں پھنسے پاکستان کے پاس اپنی پسند و ناپسند نہیں رہی۔ ’آئی ایم ایف‘ کے ساتھ پہلے سے طے پانے والے معاہدے کی ہر شرط چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی تسلیم کرنا پڑے گی اور اگر ایسا نہ ہوتا تو موجودہ حکومت کے نئے وزیر خزانہ بنا وقت ضائع کئے اور بنا کسی تعطل ایک ارب ڈالر قرض کی قسط حاصل کرنے کیلئے واشنگٹن پرواز نہ بھرتے۔ اگرچہ سٹیٹ بینک کے خود مختاری کے قانون پر دوبارہ غور کرنے کے حوالے سے حکمراں جماعت کے ایک انتہائی سینئر رہنما اور حساس و ذمہ دار عہدے پر فائز وفاقی وزیر خواجہ آصف کا سیاسی طور پر کچھ حاصل کرنے کی کوشش ہے لیکن وہ ایسے تنہا شخص نہیں جو سٹیٹ بینک کی خودمختاری اور اِس سے متعلق قانون کے حوالے سے اعتراضات نہ رکھتے ہوں۔ سٹیٹ بینک کی موجودہ خودمختاری صرف ایک ہی صورت ممکن ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ سے کنارہ کشی اختیار کی جائے اور قومی خودانحصاری و قومی خودکفالت کے اصولوں پر ”نیا پاکستان“ تخلیق کیا جائے۔