اگر بینکوں کی اپنی چھٹی تھی تو بتا دینا تھا۔ عام پبلک کو توپتا نہیں چلتا۔پچھلے دنوں جتنے بینک تھے اس دن بند تھے۔ مگر یہ بندش پبلک کیلئے تھی۔ بینکوں کے اندر سارا سٹاف رات گئے تک بیٹھا رہا۔انھوں نے سال کے اس ایک دن بیٹھ کر بہت کام کیا۔جس کے صلے میں جملہ سٹاف کودوسرے دن چھٹی دی گئی تھی۔ مگر عام عوام کو اس بات کا پتا نہ تھا۔ اگلے دن ہفتہ اور اتوار دو دن اور بھی چھٹیوں میں شامل ہوگئے۔ یوں چار دن عوام رُلتے رہے۔وہ اے ٹی ایم مشینوں پر جاجا کر تھکن سے چور ہوگئے۔ کبھی یہاں کبھی وہاں راہ کے روڑے بن کر پورے شہر میں ایک اے ٹی ایم مشین میں اپنا کارڈ ڈالتے اور کبھی دوسری مشین میں۔مگر بہت کم لوگوں کو پیسے نکلوانے میں کامیابی ہوئی۔خاص اس روز جب بینک کا عملہ بینک کے اندر توکام میں مصروف تھا۔ مگر عوام کیلئے اے ٹی ایم مشینیں بند تھیں۔ لوگ رُلتے کھلتے کبھی ایک مشین کارخ کرتے کبھی کسی دوسرے بینک کے باہر لگے بوتھ سے سر کو ٹکرانے پہنچ جاتے۔کارڈ ڈالتے تو مشین رقم دینے سے انکار کر دیتیں۔ صارفین کو حقیقت معلوم نہ تھی۔
وہ سمجھتے یہ بوتھ والی مشین کام نہیں کر رہی۔ وہ دوسری مشین کارخ کرتے۔اتناکہ انھوں نے درجن بھر مشینیں کھنگال ڈالیں مگر نہ دیا اور نہ دیا اس اے ٹی ایم کی کروڑوں روپوں کی حامل مشین نے پان سو کا نوٹ تک نہ دیا۔شہر کے ایک کونے سے ایک صارف اے ٹی مشین میں کارڈ ڈالتا او رجب بار بار ڈالتا تو مشین اس کا کارڈ ہی نگل لیتی۔اسے بتلایا نہیں گیا تھا کہ مشین میں آج کے دن رقم موجود نہیں ہوگی۔ بعض برانچوں کا تو عام دنوں میں بھی براحال براہوتا ہے۔ اندر چیک کیش کروانے جاتے تو عام آدمی کو ایک اور ٹھوکر لگتی۔جواب ملتا سسٹم خراب ہے۔جب تک سسٹم ٹھیک نہ ہوگا چیک کیش نہیں ہوگا۔پھر یہ مسائل تو آئے دن ان بینکوں میں آدمی کا منہ چڑاتے ہیں۔ اگر کوئی بانڈ بھی کیش کروانے جاؤ تو منہ کی کھانا پڑتی ہے۔کہتے ہیں سسٹم خراب ہے۔ اس لئے قومی بچت کے مرکز جاؤ وہاں سے بانڈ کیش کرواؤ۔ افسوس ہے کہ عوام کیلئے بانڈوں کااجراء کر کے سرکاری لوگوں نے یہ رقم خزانے میں جمع کر رکھی ہے۔پھر کہا کہ آپ کا بانڈ ہر بینک سے کیش ہوگا۔تاہم بعض برانچوں والے حیلے بہانے کر کے کیش دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔
کبھی تو سسٹم خراب اور کبھی کہتے ہیں بانڈ پرانا ہے۔یہ سٹیٹ بینک سے کیش ہوگا۔حالانکہ دکانوں کے باہر شوکیس رکھے بانڈوں کا کام کرنے والے اس کوچھٹی والے دن بھی اپنی کمیشن لے کر کیش کردیتے ہیں۔کچھ بانڈ کیش کرتے وقت اتنے بہانے کرتے ہیں کہ جی چاہتا ہے وہیں کاؤنٹر پر اپنے ہی بانڈ کے پرزے پرزے کرڈالیں۔اے ٹی ایم میں جاؤ تو لنک ڈاؤن ہوتاہے۔پھر سار ا دن کڑھتے کھپتے رہو۔جانے کب او رکس وقت یہ لنک اپنی اصلی حالت پر آئے گا۔ وہاں کھڑے لوگ ایک دوسرے کو گائیڈ کرتے ہیں۔ایک کہتا ہے یہ فلاں بینک کاکارڈ ہے یہ اسی بینک کے اے ٹی ایم میں کام کرے گا۔ انگریزی زبان میں موبائل پر ایس ایم ایس آیاہوتا ہے۔جس کو عام آدمی سمجھ تو کیا پڑھ ہی نہیں سکتا۔لہٰذا اس کواطلاع نہیں ہو پاتی کہ مجھے کیاکرناہے۔ایس ایم ایس میں لکھا ہوتا ہے کہ کچھ فنی خرابیوں کی وجہ سے آپ کسی او ربینک کااے ٹی ایم استعمال نہ کریں۔
آپ اسی بینک کے اے ٹی ایم سے رقم نکلوا سکتے ہیں۔ایک تو ان کی فنی خرابیاں آئے روز زیادہ ہو رہی ہیں۔بینکوں میں مہینے کے شروع کے دنوں میں حد سے زیاد ہ رش ہوتا ہے۔اس دباؤ کو کم کرنے کی غرض سے بینک انتظامیہ نے اپنے کلائنٹس کو اے ٹی ایم کارڈ جاری کر رکھے ہوتے ہیں۔مگر آپ جب رقم کابندوبست نہیں کر سکتے تو اے ٹی ایم کارڈ کا کیا فائدہ۔ اگلا تو آرام کرکے رقم نکلوانے کو آئے گا۔مگر معلوم ہوگا کہ یا تومشین خرا ب ہے یا اے ٹی ایم میں رقم موجود نہیں۔کبھی نا سمجھی میں اے ٹی ایم مشین اس کا کارڈ ہی ضبط کرلیتی ہے۔سو اب وہ تین دن بعد جب بینک کھلے گا تو اسی اے ٹی ایم مشین والے بینک کے اندر جاکر اندر سے وہ ہضم شدہ کارڈ نکلوائے گا۔یہ تو مخلوقِ عام کو اے ٹی ایم کارڈ کے نام پر آزار دینے والی بات ہے۔اب عید سرپر ہے۔ان تین دنوں پھرعوام نے اے ٹی ایم سے رقم نکلوانا ہوگی مگررقم نہ ہوگی اور پھر یہ بھی کہ اے ٹی ایم کالنک ڈاؤن ہوگا۔افسوس ہے عوام کیلئے رُلنے کے لئے پھر وہی دن آرہے ہیں۔