جدید جرائم:متعصبانہ نقطہ نظر

جولین اسانج ایک آسٹریلوی شہری ہیں جنہوں نے ایک دہائی قبل ویکی لیکس کے ذریعے امریکی حکومت کی خفیہ (کلاسیفائیڈ) معلومات کا ایک ذخیرہ ویب سائٹ پر جاری (شائع) کر دیا تھا اور اِس سے دنیا بھر پر امریکہ کے جنگی جرائم جو پہلے ہی عیاں تھے لیکن اُن کے بارے میں دستاویزی ثبوت سامنے آ گئے۔ اگرچہ ابھی تک اسانج کی امریکہ کو حوالگی کی تصدیق نہیں ہوئی لیکن برطانوی عدالت کے فیصلے کے بعد اسانج کی رہائی کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔ امریکہ نے اسانج پر جاسوسی کا الزام عائد کر رکھا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُسے امریکہ کے حوالے کیا جائے جہاں اُسے ملک سے غداری اور جاسوسی جیسے الزامات کے تحت‘ یک طرفہ عدالتی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدالتی فیصلے کے بعد اسانج کے پاس اپنے کیس کی پیروی میں کچھ قانونی اختیارات (آپشنز) موجود ہیں لیکن ان کی طویل حراست اور امریکہ کے بارے میں برطانوی رویئے کو مدنظر رکھتے ہوئے باقی قانونی اختیارات بھی جلد ہی ختم ہو سکتے ہیں جیسا کہ عدالت اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست سن سکتی ہے اور فیصلے کے حوالے سے ایک ممکنہ عدالتی جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے جو ملزم کو مہلت دے سکتا ہے۔ درحقیقت ’اسانج کیس‘ برطانوی عدالتی نظام کیلئے بھی آزمائشی مقدمہ بن گیا ہے۔ برطانیہ کو اپنے عدالتی نظام پر بڑا فخر ہے لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ عدالت کس طرح ’اسانج کیس‘ میں تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اسانج کے وکلأ نے گذشتہ ایک دہائی میں عدالتوں میں کئی درخواستیں پیش کی ہیں لیکن وہ انہیں اپنے حق میں فیصلہ حاصل نہیں ہو رہا۔ دنیا کو اظہار رائے کی آزادی کا سبق دینے والے سبھی ممالک ’اسانج کیس‘ پر خاموش ہیں جبکہ زبانی کلامی تسلیم کیا جاتا ہے اور اِس حق کو بنیادی انسانی حق سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے لیکن اسانج کا امریکہ اور اس کی پالیسیوں اور طریقوں کو بے نقاب کرنے کو بالکل الگ انداز سے دیکھا جا رہا ہے حالانکہ اِس کے ذریعے دنیا کو فائدہ ہوا ہے۔ خاص طور پر جس طرح دہشت گردی کے نام پر دنیا پر جنگیں مسلط کی جاتی ہیں اور جس مقصد کیلئے نیٹو جیسے فوجی اتحاد بنائے جاتے ہیں‘ یہ سب اَب خفیہ باتیں نہیں رہیں۔ اہل مغرب دنیا پر اپنے نظریات اور اصول لاگو کرتے ہیں لیکن خود اِن اصولوں کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ اسانج کا جرم کیا ہے؟ اِس نے امریکہ کی مجرمانہ جنگی مشینری کو بے نقاب کیا۔ امریکہ کی منافقت کو اجاگر کیا اور اس کے لئے اُسے مسلسل ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن اسانج کے حق میں کوئی وہ ممالک بھی نہیں بول رہے جن کے خلاف امریکہ کے جنگی جرائم کے ثبوت سامنے لانے والے نے اپنی آزادی اور زندگی داؤ پر لگا رکھی ہے۔ امریکہ میں اسانج کے خلاف ایک بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے امریکی فوج کے خفیہ ادارے (انٹلی جنس) کے تجزیہ کار چیلسی میننگ کو ارسال کردہ سفارتی مکتوبات اور فوج یا فوجی کاروائیوں سے متعلق کوائف و اعدادوشمار چوری کئے ہیں اور چوری کے اِس عمل میں تکنیکی مدد بھی فراہم کی جس کے بعد حاصل ہونے والی دستاویزات کو ’ویکی لیکس‘ نامی ویب سائٹ پر جاری (شائع) کر دیا گیا اور تب سے دنیا کو سانپ سُونگھ گیا ہے۔