وہ بھی کیا زمانہ تھا

وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ جب ہوائی جہازوں میں سفر کرنے والوں کیلئے کراچی ایشیا کا دروازہ ہوا کرتا تھا! ایشیا کے 80فیصدمسافر جو یورپ‘ افریقہ اور امریکہ جا رہے ہوتے وہ کراچی سے ہو کر جاتے کراچی ائیر پورٹ کی بالکل اس زمانے میں وہی مقام تھا جو آج کل دبئی یا دوہا کا ہے جہاں سے ہراس مسافر کا خواہ مخواہ گزر ہوتا ہے جو امریکہ‘ کینیڈا‘ یورپ یا کسی اور براعظم کی جانب عازم سفر ہوتا ہے بالکل اسی طرح دوسرے براعظموں کے مسافر ایشیا میں داخل ہونے سے قبل کراچی میں لامحالا اترتے تھے ہماری قومی ائیر لائن پی آئی اے نے دنیا بھر میں پاکستا ن کی شناخت کرا دی تھی اس ملک کی بیرونی دنیا میں جتنی تشہیر پاکستان ہاکی ٹیم کی وجہ سے ہوئی تھی اتنی ہی پی آئی اے کی وجہ سے بھی ہوئی تھی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قومی ائیر لائن کئی بیرونی ائیر لائنز کی ماں بھی کہلائی ہماری ائیر لائن کے عملے نے ایک نہیں بلکہ پانچ غیر ملکی ائیر لائنز کے قیام‘تشکیل نو اور تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا‘آج دنیا کی ائیر لائنز انڈسٹری میں ایمریٹس‘ سنگاپور ائیر لائن‘کورین ائیر لائن‘ ملائیشین ائیر لائن اور ائیر مالٹا کا کافی اونچا نام ہے اور یہی وہ ائیر لائنز ہیں جو آج اپنی کامیابی کیلئے پی آئی اے کی مرہون منت ہیں ہم نے ایک جگہ پڑھا ہے کہ مالٹا کی حکومت نے اپنے سکولوں کے بچوں کیلئے جو تعلیمی سلیبس مرتب کیا ہے اس میں حقیقت کا اعتراف برملا الفاظ میں کیا گیا ہے کہ پی آئی اے نے ا س ملک کی ائر لائن کو ائیر لائن انڈسٹری میں موجود ہ مقام دلوانے میں کلیدی کردارادا کیا ہے‘ ہوا یوں تھا کہ 1971ء میں جب مالٹا کی حکومت نے اپنی قومی ائیر لائنز بنانے کا فیصلہ کیا تو اس مقصد کیلئے اس نے دنیا بھر کی ائیر لائنزسے اوپن ٹینڈ رمانگے پی آئی اے نے اپنا ٹینڈر جمع کرایا ایک کھلے مقابلے اور موازنے کے بعد پی آئی اے کا ٹینڈر مالٹاکی حکومت نے منظور کر لیا اور دیگر ائیر لائنز کے ٹینڈ ر مسترد کر دئیے آج پوزیشن یہ ہے کہ جن غیر ملکی ائیر لائنز نے پی آئی اے کی طرف سے فراہم کی گئی تربیت سے فائدہ اٹھایاوہ فرش سے عرش تک پہنچ چکی ہیں جبکہ ہماری قومی ائیر لائنز عرش سے فرش پراوندھے منہ ایسی گری ہے کہ باوجود کوشش بسیار ابھی تک وہ دوبارہ اٹھنے کے قابل نہیں ہو سکی‘  ہر دور میں کوشش کی گئی تاہم جب تک پی آئی اے کو جب تک خالصتاً میرٹ پر ایک کمرشل ادارے کی طرح نہیں چلایا جائے گاور اس کے کاموں اس کے عملے کی بھرتی اور اسکے سٹاف کے احتسابی عمل کو فول پروف نہیں بنایا جائیگا اسکی عظمت رفتہ بحال نہیں ہو سکے گی‘ خدا لگتی یہ ہے کہ آج کل اگر کسی پاکستانی کو کوئی سخت مجبوری نہ ہو تو وہ بھی پی آئی اے کا ٹکٹ نہیں لیتا اور کسی غیر ملکی ائیر لائنز میں سفر کرنے کو پسند کرتا ہے کیونکہ ایک تو ان کے جہازوں کی حالت بہتر ہے ان کا سیفٹی سٹینڈرڈ بین الاقوامی سیفٹی معیار کے عین مطابق ہے مسافروں کے ساتھ ان کے عملے کا سلوک نہایت ہمدردانہ ہے اور دوران سفر ان کو جو کھانا پینا دیا جاتا ہے وہ حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہوتا ہے۔