سوشل میڈیا کھیل تماشے

ہم تو ترس ہی گئے ہیں کہ فارغ ہوں اور فیس بک پر سرفنگ کر کے اس کے صفحات الٹیں۔اس سوشل میڈیا کے مزے لیں۔کیونکہ جتنے بھی یار دوست ہیں خواہ اپنی گلی ہی میں ہوں یا خاندان میں  یا کسی دور دراز کے براعظم میں ہوں۔ان کے ساتھ ملاقات اب اسی ایپ پر ہوسکتی ہے۔مگر یہاں تو اپنے ہاں اتنی فرصت ہی نہیں۔سو بکھیڑے ہیں جن کو دن بھر نپٹانا ہوتا ہے۔پھر بھی کچھ ہوپاتے ہیں اور کچھ باقی ماندہ رہ جاتے ہیں۔ہمارے دوست بیرون ملک سے اپنے پیدائشی شہر پشاور کو آئے۔ معلوم تھا کہ فلاں تاریخ کو اتریں گے۔ یقین تھا کہ اس بار بھی وہ اپنے شہروالے گھر میں دوستو ں کو جمع کر کے گپ شپ کی راہ نکالیں گے۔ کیونکہ وہ وطن سے دور جتنے سال وہاں رہیں۔مگر ان کو پشاور کی یادآرام سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ ان کے دل میں ہوتا ہے کہ پر لگ جائیں اور وہ مہینے بعد دوبارہ پشاور چلے جائیں۔مگر رزق کے لئے اپنے ملک سے دور رہنا پڑتا ہے۔خواہ ساری عمر یا چند سال۔پھر اس دوران میں کسی نہ کسی طرح پشاور آکر اپنے دل و دماغ اور روح کو ریفریش کیا جاتا ہے۔پھرجہاں سے آئے گھومتے گھامتے پرندوں کی طرح وہاں سرِ آسماں اڑان بھرنے لگتے ہیں۔اس بار ہمارے پیارے دوست آئے تو دل نے کہا اے دل ٹھہر جا آج ان کا فون آئے گا۔مگر وہ آج کا دن گذشتہ کل بن گیا۔ سچی بات یہ کہ ہمیں بھی اپنی الجھنوں سے فرصت نہ ملی کہ ہم خود ان سے رابطہ کرتے۔لیکن جب ہوش آیا تو فیس بک پر ان کی پوسٹ دیکھی۔جس کا متن ظاہر کرتا تھا کہ وہ واپس چلے گئے ہیں۔جب میں نے ان سے رابطہ کیا کہ صاحب کیا بات ہے۔اس بار ملے ہی نہیں۔ انھوں نے کہا یار بس اب کے  فراغت ہی نہ ہوئی کہ کسی سے ملتے ملاتے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ آہستہ آہستہ ہر کس و ناکس کے پاس فارغ ہونے کے اوقات کم سے کم ہو رہے ہیں۔خواہ وہ اندرون ملک ہو یا بیرون ملک رہائش پذیر ہو۔ یہ زمانہ کس طرف جا رہاہے۔پھر فیس بک نے اتنی آسانی پیدا کر دی ہے کہ بس ایک ہاتھ ملانا ہی رہ گیا ہے وگرنہ تو اس میڈیا پربندہ بندے کے ساتھ اچھے طریقے سے ملاقات کر سکتاہے۔بس ترقی ہے اور ایک طرح سے ناجائز قسم کی ترقی کی دوڑ ہے۔موبائل نے تو اس ترقی میں اپنا وہ لائن شیئر ڈالاکہ جس طرح سچ مچ جنگل میں شیر جیسے بادشاہ کاہر چیز میں حصہ ہوتا ہے۔وہ اپنا حصہ لے کر رہتا ہے۔ اگر نہ بھی لے تو اس کا شیئر ہر طرح سے اپنے حقوق کے لحاظ سے محفوظ ہوتا ہے۔مگر میں کہوں فیس بک بھی فراغت کی زندگی والوں کا کام ہے۔ہم سے ایک وٹس ایب نہیں سنبھالا جاتا۔پھر فیس بک ہوا اور میسنجر وغیرہ۔یہ درجن بھر سائٹ تو تفریح کے لئے ہیں۔ اگر بندہ دیکھے تو اس پر تلوار نہیں لٹک رہی کہ مت دیکھو اور نہ دیکھے تو اس پر کسی نے خول سے تلوار کھینچ کرنہیں نکالی۔مگر نیٹ پر جو جو حاصل ہے اس میں بعض ایپ تو انسانی ضرورت ہیں۔ فیس بک پر ہر گروہ کا خواہ معاشرے کے جس طبقے سے تعلق رکھتا ہو اپنا پیج ہے۔ ٹی وی کا ٹہکا جو ناظرین کی آنکھوں پر اپنی دھونس جمائے تھا وہ بھی اب طاقت نہیں رکھتا۔اب تو یوٹیوب نے وہ لنکاڈھا دی ہے۔جس کے بھیدی کسی مسئلہ پر حقائق کو چھپاتے ہیں۔وہی حقیقت اپنی سخت دلی اور شق القلبی کے ساتھ نیٹ پر مل جاتی ہے۔ٹی وی کا وہ زور اور نشہ اب دم توڑنے لگا ہے۔وہ جو ٹی وی پر چھپاتے ہیں نیٹ پر آسانی سے مل جاتا ہے۔وٹس ایب کے گروپ ہیں اور لاتعداد خبریں ہیں۔نیوز کی بھرمار ہے موبائل ہینگ ہو رہے ہیں۔مگر انفارمیشن کی یلغار ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ چاہئے تھا کہ معلومات اور آگاہی کے نام پرجو سرکاری ہدایات او رٹریفک پولیس کی نصیحتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔پھر اس کے علاوہ ہر جگہ ہونے والے جرائم کی بنیادوں تک اتر جانے والی خبریں موصول ہوتی ہیں۔اس سے کم از کم یہ ہوتا کہ شہریوں کو عبرت کا سامان ملتا۔مگر ایسا نہیں۔ہر بدلتے ہوئے دن کے ساتھ کرائم و جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہاہے۔ایسے میں کہ سر کھجانے کی فرصت نہ ہو بندہ وقت کہاں سے لائے اور جرائم کی اصل سٹوری فیس بک اور دوسری ایپ پر دیکھتا جائے۔اگر صرف فیس بک کو لے کر بیٹھ جائیں تو اس کے لئے گھنٹہ کیا مسلسل ایک دن ناکافی ہے۔یہ سب ایپ ہیں تو مزے کی چیزیں مگر اتنا وقت کہاں جو ایک کو بھی سنبھال لیں۔یہ نیٹ ہماری زندگی میں اس طرح داخل ہے کہ اندر اندر ہمارے معاشرے کی ساکھ کو کیڑا لگ گیا ہے۔جانے یہ بند گلی کا سفر ہے یا کھلی چراگاہوں کی راہ ہے۔