نئے ائر پورٹ کی اشد ضرورت

دنیا بھر میں ہوا بازی کا ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ جو بھی ایئرپورٹ بنائے جاتے ہیں وہ شہروں کی آبادی سے بہت باہر بنائے جاتے ہیں تاکہ ایئرپورٹ پر جہازوں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کو محفوظ بنایا جا سکے اس کالم میں آ ج ہم صرف دو ایئرپورٹس کا ذکر کریں گے جو آج چاروں طرف سے شہری آبادی میں گھرے ہوئے ہیں اور جہازوں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کیلئے نہایت ہی غیرمحفوظ اور خطرناک ہیں۔پشاور اور راولپنڈی میں چکلالہ کے مقام پر انیس سو بیس اور تیس کے درمیان جب ایئرپورٹس بنائے جارہے تھے تھے تو اس وقت ان کے نزدیک کوئی لمبی چوڑی شہری آبادی نہیں ہوا کرتی تھی یہ بھی ہوا بازی کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی ایئرپورٹ کے چاروں طرف 5 کلومیٹرز تک کسی بھی شہری آبادی کی اجازت نہ دی جائے متعلقہ اداروں کی غفلت کی وجہ سے آج ان دونوں ایئرپورٹس کے چاروں طرف کئی آبادیاں بس چکی ہیں،کئی کمرشل ایئر لائنز کے پائلٹوں نے کئی مرتبہ ماضی میں شکایت کی کہ چونکہ ان ایئرپورٹس پر لینڈنگ اور ٹیک آف خطرے سے خالی نہیں لہٰذا وہ اپنی پروازیں ان شہروں کیلئے منقطع کرنے پر سوچ رہے ہیں حکومت نے چکلالہ ائر پورٹ کی جگہ اسلام آباد میں نیا ائر پورٹ بنا دیاہے پر اگر اس کے اطراف میں بھی گھر بنانے شروع کر دیئے گئے

تو اس کا حال بھی چکلالہ ائر پورٹ سے مختلف نہ ہوگا۔ لہٰذا مقامی انتظامیہ کو اس معاملے میں بیدار رہنا ہو گا۔ پشاور کے عوام کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ باچا خان ایئرپورٹ چونکہ کمرشل فلائٹس کیلئے مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے محفوظ نہیں رہا لہٰذا کسی اور مقام پر شہر سے کافی باہر نیاائرپورٹ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے یہ بھی دیکھنے میں آ یا ہے کہ شادیوں اور دیگر خوشیوں کے موقعوں پر پشاور ایئرپورٹ کے اطراف میں واقعہ آبادی میں ہوائی فائرنگ کرتے ہیں جس سے اس ائر پورٹ پر لینڈنگ اور ٹیک آف خطرناک ہو جاتا ہے۔ ماضی میں ایک مرتبہ پیر پیائی کے قریب واقع ایک وسیع و عریض کھلے علاقے میں نئے ائر پورٹ کی تعمیرِ زیر غور تھی جسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا جا سکا۔کیا اس پر دو بارہ غور نہیں کیا جا سکتا۔ اب کچھ ذکر خوراک کے عالمی بحران کے منڈلاتے خطرات کا ہو جائے جس سے پوری دنیا متاثر ہونے کاخدشہ ہے۔ عالمی بینک کے ڈائریکٹر ڈیوڈ مالپاس کے مطابق یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوراک کے بحران کی وجہ سے دنیا کو ایک انسانی المیے کا سامنا ہے۔انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر مشرقی یورپ میں جنگ جاری رہتی ہے تو خوراک کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کروڑوں لوگوں کو غربت اور ناقص غذائیت کی طرف دھکیل دے گا۔عاملی بینک کو خدشہ ہے کہ عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 37 فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے،

جس سے خاص طور پر غریب ممالک متاثر ہوں گے۔اگرچہ یہ سچ ہے کہ حالیہ دہائیوں میں دوسری بڑی جنگیں بھی ہوئی ہیں، لیکن اس سے قبل کسی اور مضبوط معیشت پر اتنی شدید پابندیاں عائد نہیں کی گئی ہیں جتنی کہ مغرب نے روس پر لگائی ہیں۔تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ خوراک کی قیمتوں میں اس بے تحاشہ اضافے سے دنیا کے کم و بیش تمام ممالک متاثر ہوں گے۔۔یونیورسٹی آف کیمبرج کے ماحولیات، توانائی اور قدرتی وسائل کے مطالعہ کے مرکز سے منسلک ماہرین کے مطابق جنگیں خوراک کا بحران پیدا کرتی ہیں۔ شام، ایران، عراق، یہ تمام ممالک خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ لیکن اس سے مغرب متاثر نہیں ہوا۔ جبکہ روس یوکرین جنگ کے حوالے سے حالات یکسر مختلف ہیں۔ دوسری جانب عالمی ادارہ خواراک نے یوکرین کی جنگ سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور2021 میں یہ قیمتیں گذشتہ دس برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی تھیں۔بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں بلند قیمتوں اور گندم جیسی غذائی مصنوعات کے ذخیرے میں تیزی سے کمی کے اس تناظر میں، روس پر اقتصادی پابندیوں کا نفاذ تشویشناک جہت اختیار کر چکا ہے۔

گذشتہ 20 برسوں میں روس اپنی آدھی خوراک درآمد کرنے والے سے ملک سے گندم جیسی مصنوعات کا بہت بڑا برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ آج روس ہر سال 35 ملین ٹن سے زیادہ گندم برآمد کرتا ہے، یوں وہ دنیا میں گندم جیسی اجناس برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔اقوام متحدہ کے تجارتی ڈیٹا بیس کے 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق یوکرین گندم عالمی برآمد کنندگان میں روس، امریکہ، کینیڈا اور فرانس کے بعد پانچویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔شمالی افریقہ کے کچھ ممالک، خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم کے ممالک، اپنی گندم کی فراہمی کیلئے روس اور یوکرین دونوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔یوکرین تنازع کے بعد ان ممالک نے پہلے ہی گندم کے سپلائرز کی تلاش شروع کر دی ہے اور اب ان کا رخ فرانس، امریکہ اور ارجنٹائن کی جانب ہو چکا ہے جو دنیا کے اناج کے بڑے اور نئے ذخیرے بن سکتے ہیں۔بھوک کے خلاف سرگرم دنیا سب سے بڑی انسانی تنظیم، ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے کے مطابق دنیا کی گندم کی برآمدات کا 30 فیصد، مکئی کا 20 فیصد اور سورج مکھی کے تیل کا 75 فیصد حصہ روس اور یوکرین پیدا کرتے ہیں،

جس میں یوکرین کا حصہ 50 فیصد اور روس کا 25 فیصد ہے۔اس کے ساتھ ساتھ روس دنیا کے سب سے بڑے کھاد فراہم کرنے والے ممالک میں بھی شامل ہے۔کینیڈا اور امریکہ کے ساتھ ساتھ، روس لاطینی امریکہ کے تمام ممالک کو کھادیں فروخت کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں شامل ہے۔کھادوں کی کمی کے عالمی مضمرات ہو سکتے ہیں، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں زیادہ قیمتوں کی وجہ سے کھادوں کے استعمال میں نمایاں کمی آ سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں خراب فصلوں کی وجہ سے عالمی منڈی میں اجناس کی فراہمی اور قیمتیں بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔جوں جوں یوکرین کی جنگ آگے بڑھ رہی ہے، روس اور یوکرین سے برآمد کی جانے والی اجناس اور کھادوں کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں اس سے خوراک کی فراہمی یا فوڈ سیفٹی کے حوالے سے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔