اتوار 24اپریل کو فرانس کے موجودہ صدر ایمانوئیل میکرون اپنے عہدے کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے صدارتی انتخابات جیت گئے ہیں اور آئندہ پانچ سال کیلئے ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔میکرون نے 57.80 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ دوسری بار بھی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ان کی مدمقابل انتہائی دائیں بازو کی امیدوار مارین لی پین 42.60 فیصد ووٹ حاصل کرسکیں۔لی پین نے اپنی شکست تسلیم کر لی مگر پھر بھی اپنے نتیجے کو "شاندار فتح قرار دیا۔انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کوجاری رکھنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا وہ فرانس کو کبھی نہیں چھوڑیں گی۔ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 48.07 ملین رہی۔ میکرون کو گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں 10 فیصد ووٹ کم جبکہ لی پین کو آٹھ فیصد زیادہ ووٹ ملے۔ واضح رہے پچھلے انتخابات میں میکرون نے 65.80 ووٹ جبکہ لی پین نے 34.20 فیصد ووٹ لیے تھے۔میکرون کے بطور صدر انتخاب کے بعد نہ صرف فرانس میں لی پین کی مخالف تنظیموں بلکہ یورپ بھر میں ان کی جیت سے خائف حکومتوں نے سکون کا سانس لے لیا ہے۔یورپی یونین کے کرتا دھرتا پریشان تھے کہ اگر اس یورپی اتحاد کی مخالف لی پین انتخاب جیت گئی تو برطانیہ کے بعد فرانس بھی اتحاد سے نکل جائے گا۔انتخابات کے بعد اٹلی کے وزیر اعظم ماریو ڈریگھی نے میکرون کی جیت کو پورے یورپ کیلئے بڑی خبر قرار دیا جب کہ جرمن چانسلر اولاف شولز نے نتیجے کو یورپ پر اعتماد کا مضبوط ووٹ قرار دیا یورپی یونین کے صدر چارلس مشیل نے کہا کہ بلاک اب فرانس پر مزید پانچ سال بھروسہ کر سکتا ہے
جبکہ کمیشن کے سربراہ ارسلا وان ڈیر لیین نے انہیں تیزی سے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہمارے بہترین تعاون کو جاری رہنے پر بہت خوش ہیں۔یاد رہے لی پین نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر بن گئیں تو فرانس یورپی یونین سے نکل جائے گا اور روس سے تیل اور گیس کی خریداری پر پابندیاں بھی نہیں مانے گی۔میکرون 2002 میں جیک شیراک کے بعد دوسری بار جیتنے والے پہلے اور مسلسل دو مرتبہ جیتنے والے فرانس کے تیسرے صدر ہیں۔انہیں جون میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اپنی پارلیمانی اکثریت برقرار رکھنے کے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔ لی پین بھی پارلیمانی انتخابات کی تیاری کر رہی ہیں۔ پہلے راؤنڈ میں انتہائی بائیں بازو کے تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار جین لوک میلینشو کی نظریں بھی ان انتخابات پر مرکوز ہیں۔میکرون 2017 میں تبدیلی کے منشور پر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے قومی ریلوے کمپنی کے ساتھ ساتھ لیبر اور پنشن اصلاحات متعارف کروائیں اور مالداروں پر ٹیکس کم کیے مگر مزدوروں کے ہڑتالوں، پیلی جیکٹ والوں کے احتجاج، کرونا وبا کے اثرات اور آخر میں روس یوکرین جنگ نے ان کے اصلاحاتی ایجنڈے میں رکاوٹ ڈال دی۔ میکرون ایک ہنگامہ خیز پہلی مدت صدارت کے بعد ایک کم پیچیدہ دوسری مدتِ صدارت کی امید کررہے ہیں جو انہیں مزید کاروبار دوست اصلاحات اور یورپی یونین اور نیٹو میں قائدانہ کردار کے ساتھ فرانس کی شمولیت کے اپنے وژن کو عملی جامہ پہنانے کا موقع دے گی۔انہیں ان لوگوں کے دل جیتنے ہوں گے جنہوں نے اپنے مخالفین کی حمایت کی یا جنہوں نے سرے سے ووٹ ڈالنے سے اجتناب کیا۔فرانس، جو دنیا کی ساتویں بڑی اور یورپی یونین کی دوسری بڑی معیشت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور جوہری طاقت ہے، کیلئے اس انتخاب کا نتیجہ بڑی اہمیت رکھتا تھا۔پچھلے ہفتے کے "چراغ راہ" میں ہم نے لکھا تھا کہ اگرچہ لی پین کی مقبولیت بڑھ چکی ہے تاہم میکرون کے جیتنے کے امکانات قوی ہیں۔
فرانس کے صدر کو وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور ان پر ان حدود و قیود کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا جو دوسرے مغربی رہنماؤں کے اختیارات پر ہوتے ہیں۔انتخابات کے مہم میں سلامتی، امیگریشن، مسلمان تارکین وطن کی حیثیت، توانائی، ٹیکس نظام، نظام صحت، یوکرین جنگ میں فرانس کے کردار اور ملکی معیشت کی بہتری کیلئے منصوبہ بندی اور پالیسی اہم نکات رہے۔اگر لی پین جیسی کٹر سفید فام نسل پرست اور انتہاپسند امیدوار صدر منتخب ہوجاتی تو فرانس جیسے یورپی یونین کے بانی اور اہم رکن کی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی و صورتحال میں بڑی تبدیلی آجاتی۔ جبکہ اب میکرون کے انتخاب سے فرانس کیلئے یورپ کی سلامتی اور دفاع میں تعاون اور سرمایہ کاری میں اضافے کے زیادہ امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔لی پین مہاجرین مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم مخالف بھی مشہور ہیں۔اس نے اقتدار میں آنے کے بعد عوامی مقامات پر ہیڈ سکارف پہننے پر بھی پابندی عائد کرنے کا ارادہ کیا تھا۔
صدر میکروں نے اس کی مخالفت کی تاکہ انہیں مسلمان ووٹروں کی حمایت حاصل ہو سکے۔ اگرچہ ووٹنگ سے پہلے لی پین نے سکارف پر پابندی کی یہ تجویز واپس لے لی تھی مگر اس ارادے نے مسلم رائے دہندگان کو میکرون کی طرف دھکیل دیا تھا۔ میرین لی پین کی پہچان یورپ، نیٹو، تارکین وطن اور امیگریشن کی مخالف امیدوار کی ہے مگر پچھلے چند مہینوں سے وہ اپنی انتہاپسند شناخت کو معتدل کرنے کیلئے کوشاں رہیں اور انہوں نے خود کو دوسرے دائیں بازو کے امیدواروں کے مقابلے میں نرم، ذمہ دار اور کم انتہاپسند ثابت کرنے کی کوشش کی مگر میکرون نے کہا تھا کہ لی پین فرانس سے سرمایہ کاروں کو دور بھگانے کا سبب بنے گی اور اس کی جیت فرانس کیلئے خطرناک ہوگی۔ دوسرے مرحلے میں لی پین کی جیت کے خوفزدہ بائیں بازو اور متوسط دائیں بازو کے افراد اور تنظیموں نے میکرون کا ساتھ دے دیا۔نومنتخب صدر کو کوونا وائرس سے متاثرہ معیشت کی بحالی، مہنگائی کم کرنے، توانائی کا مسئلہ اور معدنی وسائل جیسے کوئلہ سے شفاف توانائی وسائل پر منتقلی، فرانس کے فلاحی نظام کے دوام، مہاجرین، اسلامو فوبیا،حجاب، لال گوشت بارے پالیسی اوریورپی یونین اور نیٹو میں فرانس کے کردار امور و مسائل سے جلد از جلد نمٹنا ہوگا۔ یاد رہے فرانس میں صدر کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست عوامی ووٹوں سے ہوتا ہے۔صدر بننے کیلئے انتخابات میں پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لینا ضروری ہیں۔