ہم بری مثال کیوں قائم کریں 

 بری مثالیں معاشرے میں کیوں قائم ہوں۔اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ہم الٹی پلٹی حرکتیں کرتے ہیں۔سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی دیکھ نہیں رہا۔مگر ہمیں ایک دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے۔ضروری نہیں کہ ہم سے ہمارے چھوٹے ہی گھر میں غلط سبق سیکھ رہے ہوں۔ ہم جب سڑک پر جاتے ہیں تو ہمیں کون کون دیکھ رہاہوتا ہے اس کاہمیں خودبھی احساس نہیں ہوتا۔ اگر سڑک پر بالفرض کوئی نہیں تو کسی دکان کے اندر دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا کوئی شخص ہمارے کسی غلط قسم کے طرز عمل کو دیکھ کر اس کو اچھا سمجھے گا اور اس کواپنی ذاتی زندگی میں داخل کر لے گا۔ سو ہم روزانہ اپنے منفی رویوں کی وجہ سے بہت سی مثالیں قائم کررہے ہوتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں خود جانکاری حاصل نہیں ہوتی۔بعض حضرات تو اس حد تک سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنے چھوٹے بیٹے کو موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دینے کیلئے اس کو اگلی سیٹ پر بائیک چلاتے ہوئے رش میں لے کر گھوم رہے ہوتے ہیں۔ وہ بچہ جس کے ابھی پاؤں زمین سے نہیں لگتے وہ قانون کے مطابق بائیک رائڈنگ کا اہل نہیں۔سو یہ عمل قانون کی کتاب میں کھلم کھلا جرم ہے۔مگر ہم لوگ اپنے پیار میں ناحق اور بلا ضرورت اور پھراپنے شوق کے تحت بچوں کو موٹر بائیک پر آگے بٹھا کر موٹر سائیکل کی ڈرائیونگ سکھلاتے ہیں۔

بچہ تو بچہ ہوتا ہے۔اس کے ہاتھوں میں اتنا زور نہیں ہوتاکہ وہ بائیک کو سرِ راہ کنٹرول کر سکے۔اس کو باپ پیچھے بیٹھ کرآہستہ آہستہ اس کے کانوں میں غلط قسم کی ہدایات کا زہر انڈیل رہاہوتاہے۔ کہتا ہے یہاں سے بائیں کاٹ لو وہاں سے نکل لو۔پھر لڑکا باپ کی ہدایت کے مطابق رش میں جہاں اس کو نہیں جانا اورنہیں گھسنا اور صبر کا مظاہرہ کرناہے وہا ں وہ جلدی میں کوئی نہ کوئی غلطی کر لیتا ہے۔جس پراس کو والد صاحب شاباشی دیتے ہیں۔اس کو ون وے میں گھس کر اپنا راستہ نکالنے کی کوشش کرنے کو اکساتے ہیں۔جب وہ کامیاب ہوتا ہے اس کو ویلڈن کہتا ہے۔یہ سنی سنائی نہیں۔یہ سب کچھ آنکھوں دیکھا ہے۔آخر ہم بھی تو اسی شہر کے بیٹے ہیں اور دن بھر سڑکوں پر خوار ہوتے ہیں۔ہم سے بھی خطا ہوتی ہے۔مگر کوشش یہ کم سے کم غلطیاں کریں۔ مگر ہے تو یہی رش والا شہر اور ہم بھی اسی بھیڑ بھاڑ کی پیداوار ہیں۔سو نہ چاہتے بھی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ جس پر بعد میں نادم اور دل میں ملامت ہوتے ہیں۔ لیکن وہ والد گرامی جو بیٹے کو ہشکت دیتے ہیں۔وہ بائیک پر بچے کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر اس کو خلافِ قانون حرکات انجام دینے کو کہتے ہیں۔

اس سے وہ اس بچے کے جس کے پاؤں بائیک پر بیٹھ کر زمین کو نہیں چھوتے کردار کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔ پھرجس پر انھیں فخر اور ناز ہوتا ہے۔گھر جا کر وہ اپنے بچے کی کارگزاری کو جتلاجتلا کر بیان کرتے ہیں او رداد حاصل کرتے ہیں۔ اس وقت بچہ بھی قانون کی خلاف ورزیوں کی داستان کو سن کر پھولے نہیں سماتا۔فخر سے اس کا سینہ بھی چوڑا ہو جاتا ہے۔پھر اس کم عمری اورناتجربہ کاری کی کیفیت کو دیکھ کر حاضر لوگ بھی حیرانی کااظہارکرتے ہیں۔اس قسم کے واقعات پورے ملک میں پیش آرہے ہیں۔ ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم اپنے بچے کو خود ہی موت کے منہ میں دھکیل دیں۔ اعتراض کرو تو فرماتے ہیں نہیں جی ہمارا بچہ تو ہم ساتھ ہوں گے پھر ڈرائیونگ کرے گا۔آپ نہ ہو تو وہ چپکے سے موٹر بائیک نکا ل کر سڑک پر جا نکلے گا۔یہ بچے کی فطرت میں شامل ہے۔اس پرانھیں ہماری بات بری لگتی ہے۔اس لئے کہ ان کا یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔مگر ایسا ہوا ہے اور بار بار ہوا ہے۔بچے تو بچے ہیں مگر ان کے باپ تو بچے نہیں ہیں۔ اس لئے تو کسی نے خوب کہا ہے کہ بچوں سے زیادہ بڑوں کو تربیت کی ضرورت ہے کیونکہ وہ بچوں کے لئے عملی نمونہ ہوتے ہیں‘

اگر وہ بچے کسی کو دُکھا دیں یا پھر ذرا سی غلطی سے ان کی جان پر بن آئے توپھر کیا ہوگا۔ایسا تو یہا ں ہوتا آیا ہے۔روزانہ کئی ٹریفک حادثات کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔بلکہ جب والد خود موٹر سائیکل چلا رہے ہوں اور ہمارابچہ ہماری پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہو تو اس وقت خاص طور سے ہمیں چاہئے کہ ہم ٹریفک کے اصولوں کے مطابق سڑک پرجائیں۔ اگر خلافِ قانون چلیں گے اور ایسی الٹی حرکات کریں گے تو ہم بچہ ہم سے سیکھ لے گا۔وہ سب کچھ دیکھ کر اپنے ذہن میں ازخود کار نظام کے تحت ریکارڈنگ کرے گا۔بعد میں جب وہ بڑا ہوگا تو اپنے باپ کی طرح موٹر سائیکل اورگاڑی چلائے گا۔ کیونکہ اس نے بنیادی تربیت اپنے والد سے حاصل کی ہوگی جو ٹریفک کے اصولوں کی دھجیاں بکھیرتا ہے۔مانا کہ ہم خود جان بوجھ کر بچے کو غلطی کرنا نہیں سکھلائیں گے مگر بعض کیسوں میں بچہ خود نوٹ کررہا ہوتا ہے۔ پھر وہ باپ کی طرح غلط طور پر گاڑی چلانا سیکھ لے گا۔