قومی ڈیجیٹل منظرنامہ: لائیو سٹریمنگ

اِسلام آباد ہائی کورٹ کو پاکستان کی ایسی پہلی عدالت ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے جس سے کسی بھی مقدمے کی عدالتی کاروائی براہ راست نشر ہو گی۔ اِس خبر کو رواں ہفتے کی سب سے بڑی خبر قرار دیا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا عدالتی کاروائی لائیو سٹریم (براہ راست نشر) کرنے کا فیصلہ بروقت اور ملک کے بدلتے ہوئے ڈیجیٹل منظر نامے کے مطابق ہے۔ تمام ضروری آلات کی تنصیب مکمل ہو چکی ہے۔ تجرباتی نشریات کا سلسلہ بھی شروع ہے جبکہ عوام کیلئے لائیو سٹریمنگ آئندہ چند روز (مئی دوہزاربائیس) سے دستیاب ہونے کی اُمید ہے چونکہ دنیا بھر کا عدالتی نظام ایک نئے الیکٹرانک اور موبائل دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور بہت سے ممالک پہلے ہی ’لائیو سٹریمنگ‘ کو باقاعدہ عمل کے طور پر اپنا چکے ہیں اِس لئے پاکستان کا بھی پہل کرنا خوش آئند ہے۔ جنوبی ایشیاء میں بھی کئی ممالک میں بھی عدالت سے لائیو سٹریمنگ کی ابتدا ہو چکی ہے۔ پاکستان میں نہ تو تاحال ’ڈی ٹی ایچ‘ شروع ہوا ہے اور نہ ہی ایسا مستقبل قریب ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن ایک سبب یہ ضرور ہے کہ پاکستان کا اپنا ’ڈی ٹی ایچ‘ نہ ہونے کی وجہ سے بھارت کے ’ڈی ٹی ایچ‘ پاکستان میں دیکھے جاتے ہیں اور یوں پاکستانی صارفین جو قیمت ادا کرتے ہیں وہ غیرقانونی طریقوں اور مختلف ممالک سے ہوتی ہوئی

بالآخر بھارت پہنچ رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں بھارت سے آنے والی 4 ’ڈی ٹی ایچ‘ نشریات ماہانہ‘ سہ ماہی‘ شش ماہی یا سالانہ ادائیگی کے عوض جبکہ ایک ’ڈی ٹی ایچ‘ نشریات مفت دیکھی جا سکتی ہیں۔پاکستان میں عوام کیلئے کسی عدالتی کاروائی کا براہ راست نشر ہونا اپنی ذات میں ’انقلابی تصور‘ ہے۔ پاکستان میں عدلیہ نے جس انداز سے دستیاب تکنیکی وسائل (ترقی) کو اپنایا ہے اور اِس سے ہم آہنگی کو ضروری سمجھا ہے اُس سے ملک کا ’قومی ڈیجیٹل منظرنامہ (صرف حال ہی نہیں بلکہ مستقبل)‘ بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ دراصل یہ تجربہ ”ای کورٹ“ کی صورت ہوگا جسے پاکستان کی کچھ عدالتیں پہلے ہی استعمال کر رہی ہیں اور اِس کے تحت کوئی جج ویڈیو لنک کے ذریعے متعلقہ وکلأ کے ساتھ ’آن لائن عدالتی کاروائی‘ کا انعقاد کرتا ہے۔کسی بھی ملک میں اداروں کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے سے بہت سے معاملات میں آسانی اور روانی آجاتی ہے جس سے خدمات کی فراہمی میں تیزی آجاتی ہے۔ اس عمل کو اگر تمام اداروں تک پھیلایا جائے تو یقینا اس کے دورروس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دیر آئد درست آئد کے مصداق اب یہ قدم اٹھانا ضروری ہے تاکہ کم وقت میں زیادہ کام کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔