دہشت گردی اور تشدد کی نئی لہر قابل تشویش ہے۔ چھبیس اپریل کی سہ پہر کراچی میں اس کی خوفناک مثال دیکھی گئی جس میں یونیورسٹی آف کراچی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں غیر ملکی نژاد تین افراد سمیت چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے اور اِس حملے کا مرکزی نشانہ چینی باشندے تھے۔ کلوزسرکٹ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ برقعہ پوش حملہ آور خاتون کو خودکش حملے کیلئے استعمال کیا گیا اور اِس حملے کی ذمہ داری ’بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی۔ پاکستان پہلے بھی ایسا ہی دور دیکھ چکا ہے جب خودکش حملوں کے ذریعے دہشت گردی پھیلائی گئی لیکن اِس مرتبہ بالخصوص چین کے باشندوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو صرف پاکستان پر نہیں بلکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے پر وار ہے۔ قومی سلامتی کیلئے یہ ایک اضافی تشویش ہے۔ یہ بات بھی راز نہیں کہ ’سی پیک‘ بہت سے ممالک کی آنکھوں میں چبھ رہا ہے جو اِسے کسی بھی صورت روکنا چاہتے ہیں۔
مسلم لیگ (نواز) کی قیادت میں حکومت معاشی و اقتصادی اصلاحات کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے تاکہ معاشی بحالی سے عوام کی قوت خرید میں اضافہ کر کے مہنگائی کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان پہلے ہی ”نیشنل ایکشن پلان“ وضع کر چکا ہے جس پر تیزی کے ساتھ عمل در آمد ہورہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں شامل ہے‘ جس کے تحت نہ صرف مالیاتی بلکہ سیاسی و قومی سلامتی کے شعبوں میں بھی نظم و ضبط ضروری ہے اور یہ اہداف ’مشترکہ‘ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے ذریعے ممکن ہے۔
کون نہیں جانتا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہزاروں قیمتی جا نوں کی قربانی دی جا چکی ہیں اور پاکستان کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان الگ سے ہوا ہے اِس لئے ضروری (لازم) ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیلئے حکمت عملی اور قومی عزم (چاروں صوبوں کی مربوط کوششوں) کو مزید مضبوط کیا جائے۔ فی الوقت سخت معاشی حالات میں پاکستان مالی سال دوہزارسات آٹھ کے دور میں واپس جانے کا متحمل نہیں ہو سکتا جب دہشت گردی عروج پر تھی اور دہشت گردی پر قابو پانے میں پاکستان کو کئی سال لگے اور اِس عرصے میں بھی سیکورٹی فورسز نے قربانیاں پیش کیں۔
کراچی میں ہوا حالیہ دہشت گرد حملہ ناپسندیدہ یاد دہانی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ”پاکستان کی جنگ“ ابھی ختم نہیں ہوئی اور ایسے عناصر سے نمٹنا باقی ہے جو قومی سلامتی پر وار کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ چھبیس اپریل کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ صورتحال کو زیادہ تشویشناک اور پریشان کن بنا رہا ہے کیونکہ اِس مرتبہ خاتون کو استعمال کیا گیا ہے اور برقعہ پوش ہونے کی وجہ سے وہ سیکورٹی اداروں کی نظروں میں آئے بغیر اپنے ہدف تک باآسانی جا پہنچی۔ یہ بات بھی لمحہئ فکریہ ہے کہ اِس دہشت گرد حملے کو سوشل میڈیا پر ’فخریہ‘ پھیلایا جا رہا ہے جس سے اندیشہ ہے کہ مزید ایسے حملوں کے ذہنی تیاری و آمادگی حاصل ہو‘ جو پاکستان کے خلاف منظم پراپیگنڈکا حصہ ہے اور یہ مہم بیرون ملک کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے چلائی جا رہی ہے۔
پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین کو چاہئے کہ وہ ایسی کسی بھی پوسٹ (پیغام) کو مزید نہ پھیلائیں اور نہ ہی سوشل میڈیا کے کسی ایک ذریعے سے حاصل کردہ پوسٹ (آڈیو‘ ویڈیو‘ صوتی پیغام‘ دستاویز یا تصویر) کو کسی دوسرے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے اپنے حلقہئ ارباب میں ارسال کریں۔ ایسے ریاست مخالف مواد کی تشہیر ایک تو سائبر کرائمز کی رو سے جرم ہے اور دوسرا اِس سے ’دہشت (بُرائی)‘ کے پھیلانے میں بدی کی قوتوں کی مدد کرنا ہے جبکہ ’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کا حکم ہے۔ دہشت گردی کا یہ گھناؤنا کھیل غیرملکی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں ہے اس حوالے سے بھارت کا کردار اظہر من الشمس ہے اور اس کا جاسوس کلبھوشن یادیو کا بلوچستان سے گرفتار ہونا اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔