فوری توجہ کے طلبگار امور

پاکستان کے نو عمر وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو پاکستانی خارجہ پالیسی بنانے اور چلانے کی ذمہ داری ایک ایسے وقت میں ملی ہے جب ان کی وزارت کو بیرونی اور اندرونی طور پر سخت مشکل چیلنجز کا سامنا ہے۔ایک طرف روس اور مغربی ملکوں کے درمیان محاذ آرائی جاری ہے  تودوسری طرف بھارت نے خطے میں بد امنی کا ڈول ڈالا ہوا ہے۔  بلاول بھٹو نے مغربی درسگاہوں سے سیاسیات اور سفارت کاری کے فن میں تعلیم پائی ہے۔ لہذا کم از کم علمی حد تک ہی سہی لیکن وہ پاکستان کو سفارتی محاذ پر درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک کو ایک آزاد اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے، کیونکہ بلاکوں کی سیاست نے پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔خاص کر امریکہ سے تو ہر حالت میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ دوستی کی آڑ میں نقصان پہنچا سکتا ہے اور ایسا ماضی میں ہوا بھی ہے۔ کہ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات اور سٹریٹیجک پارٹنر شپ کے باوجود پاکستان کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔اب ایک اور اہم معاملے کی طرف آتے ہیں۔  جنرل الیکشن  کے فوری انعقاد کے مطالبات سننے میں آرہے ہیں تاہم الیکٹورل ریفارمز کے بغیر  اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ہارنے والی پارٹیاں میں  نہ مانوں میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر لوگوں کو سڑکوں پر لاکر کیا ایک مرتبہ پھر حسب سابق ملک میں انتشار کی صورت حال نہیں پیدا کریں گی؟ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپوزیشن اور حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈرز آ پس میں سر جوڑ کر ٹیبل پر نہیں بیٹھیں گے تو الیکٹورل ریفارمز کیسے ممکن ہو سکیں گے۔  اس لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو از حد ذمہ واری کا ثبوت دے کر یہ گتھی سلجھانا  ہو گی  شنید ہے کہ نئی  انتخابی حلقہ بندیاں بھی ابھی مکمل نہیں یہ میڈیا میں موجود  غیر جانبدار تحقیقاتی جرنلزم سے تعلق رکھنے والے افراد کی اب  ذمہ واری بنتی ہے کہ وہ قوم کو حقائق سے آگاہ کریں کہ یہ آخر کس کی  غفلت تھی جو اتنا ضروری کام بر وقت نہیں ہوا۔ ایک اور بڑا مسئلہ گڈ گورننس کا ہے، ہر دور میں اس حوالے سے کوششیں کی جاتی ہیں تاہم ابھی تک ہم مجموعی طور پر گڈ گورنس سے کوسوں دور ہیں سوال یہ بھی ہے کہ اگر الیکشن اکتوبر 2022  تک کسی نہ کسی وجہ سے نہ ہو سکے جیسا کہ دو عیدین جو اس دوران پڑتی ہیں  یا محرم الحرام   کا مہینہ تو پھر نومبر 2022 سے لیکر فروری 2023 تک بات جا سکتی ہے کیونکہ موسم سرما میں  تو ملک کے کئی علاقوں میں  برفباری ہوتی ہے جس کے دوران الیکشن  کا انعقاد نا ممکن ہوتا ہے اور پھر سب سے بڑی رکاوٹ الیکشن میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال کے فیصلے پر پڑ سکتی ہے۔ اس پر اتفاقِ راے ہونا مشکل نظر آ رہا ہے اور اس کے علاوہ اوور سیز پاکستا نیوں کو ووٹ کا حق دینا یا نہ دینا بھی حکومت اور اپوزیشن میں وجہ تنا زعہ بن سکتا ہے۔اب دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ پاک افغان بارڈرافغانی حکمرانوں سے تو سنبھالا نہیں جا رہا آئے دن بارڈر کے اس پار سے دہشت گرد حملے ہوتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے اب زیادہ تیزی سے کام کرنے کی ضرور ت ہے۔ مغربی ممالک میں دیکھئے کہ بارڈر منیجمنٹ پر کتنی توجہ دی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک سرحدات پر آمد و رفت کو بہت منظم انداز میں مانیٹر نہیں کیا جاتا ہے۔ مسائل سامنے آتے رہیں گے۔اس وقت عالمی منظرنامہ جس طرح ترتیب پا رہا ہے اس میں پاکستان کا کردار کئی حوالوں سے اہم ہے اس لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے معیشت کے استحکام پر توجہ دی جائے کیونکہ عالمی معاشرے میں ان ممالک کی عزت ہے جو دوسروں سے مدد طلب کرنے کی بجائے خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں اور ساتھ دوسرے ممالک کی مدد بھی کر رہے ہیں۔