طبعی سائنس: علمی تشویش

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دنیا کے 135ممالک پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سال 2050ء تک صرف موسمی اثرات کی وجہ سے عالمی سالانہ اقتصادی پیداوار میں چار فیصد کمی ہوگی اور یقینی امر ہے کہ اِن منفی موسمی اثرات سے پاکستان جیسے ترقی پذیر (غریب ممالک) کو ترقی یافتہ (مالدار ممالک) کی نسبت ”زیادہ نقصان“ پہنچے گا۔ کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ گرمی کی لہر میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ بارشوں کے موسم میں بارشیں نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے زراعت متاثر ہے اور غیرمتوقع موسلادھار و طویل دورانیے کی بارشوں کے باعث زمین کی بالائی سطح پر زرخیز مٹی بہہ رہی ہے اور خشک سالی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سبھی امور قومی سیاست سے زیادہ اہم ہیں لیکن اِن پر فیصلہ سازوں اُور ذرائع ابلاغ کی توجہ مرکوز نہیں ہے۔ ذہن نشین رہے کہ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ پاکستان اور سری لنکا میں لگنے والی جنگلات کی آگ‘ سیلاب‘ طوفانوں اور پانی کی قلت سے مراد یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کی مجموعی خام پیداوار کا دس سے اٹھارہ فیصد حصہ خطرے میں ہے جو شمالی امریکہ کے ممالک کے مقابلے میں قریب تین گنا ہے اور اِن موسمیاتی تبدیلیوں سے یورپ کا خطہ کم متاثر ہوگا۔ وسط ایشیا‘ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ اور سب صحارا افریقہ کے خطوں کو بھی بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ مشرقی ایشیا اور بحر الکاہل کے ممالک کو سب صحارا افریقہ کی طرح خطرات لاحق ہیں لیکن بنیادی طور پر ان کو گرمی کی لہر اور خشک سالی کے بجائے طوفان اور سیلاب جیسے خطرات لاحق ہیں۔ خط استوا یا چھوٹے جزیروں کے آس پاس کے ممالک زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں جبکہ زراعت جیسے شعبوں پر زیادہ انحصار کرنے والی معیشتیں بڑے سروس سیکٹر والے ممالک کے مقابلے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ زیادہ تر ممالک کے لئے آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثر ہونے والے نقصانات پہلے ہی بڑھ رہے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے جانوروں کی معدوم ہوتی نسلیں‘ ماحولیاتی نظام کی تباہی‘ مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریاں‘ سخت گرم موسم‘ پانی کی قلت اور فصلوں کی کم ہوتی پیداوار جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ صرف گزشتہ ایک سال کے دوران دنیا نے سیلاب‘ گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) اور چار ممالک میں جنگلات میں آگ لگنے کے بدترین واقعات دیکھے لیکن انسان کی ناعاقبت اندیشی یہ ہے کہ وہ اِن واقعات کو دیکھنے کے باوجود بھی اِن سے سبق نہیں سیکھ رہا۔اقوام متحدہ نے رپورٹ کے ذریعے دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ فضا میں آلودگی کاربن آلودگی کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی پر تیزی سے قابو پانے کی کوششوں کے باجود ان عوامل سے یہ تمام اثرات آنے والی دہائیوں میں (وقت کے ساتھ) کم نہیں بلکہ زیادہ ہوں گے۔ رپورٹ میں ’موافقت‘ کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا جائے گا‘ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو ان تباہ کن نتائج کیلئے تیاریوں کا حوالہ دیتی ہے جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ معاملات میں اس سے مراد یہ ہے کہ ناقابل برداشت گرم دن‘ تیز سیلاب اور طوفان سے موافقت زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ سال دوہزارپندرہ کے پیرس معاہدے میں کرہئ ارض کے درجہ حرارت کو کم از کم 2 ڈگری سنٹی گریڈ سے نیچے رکھنے اور کم از کم ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود رکھنے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم اِس سلسلے میں بہت کم عملی اقدامات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ اگست دوہزاراکیس میں انسانوں کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کی ’طبعی سائنس‘ سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی گئی‘ جس میں معلوم ہوا کہ تقریباً ایک دہائی کے اندر عالمی حرارت کا ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ سے بڑھنا بظاہر یقینی امر ہے اور زمین کی سطح اُنیسویں صدی سے ایک اعشاریہ ایک ڈگری سنٹی گریڈ گرم ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کرہئ ارض کا ماحولیاتی تنوع بگاڑ کی اُس حد تک آ چکا ہے جہاں ’موسمیاتی بحرانوں‘ سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکتا اُور انسانی بقا کو مدنظر رکھتے ہوئے دانشمندی اِسی میں ہے کہ ماحول دشمن (گرین ہاؤس) گیسوں کی آلودگی میں تیزی سے کمی لائے جائے۔ طبعی سائنس موسمیاتی عمل میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتی ہے اور سائنس اس بارے میں چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ کرہئ ارض کی صورتحال ہر دن سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے اور اس وقت جس ایک چیز کی کمی ہے وہ حکومتوں کی جانب سے اِس حقیقت کا ادراک نہیں کیا جا رہا کہ موسم کتنا بڑا خطرہ ہیں۔