یہ ایک سڑک ہے

مگر یہ کون سی سڑک ہے اور کہاں واقع ہے۔یہ پریشانی اٹھانا ضروری نہیں۔بس یہ کافی ہے کہ یہ شہر کی سینکڑوں چھوٹی بڑی سڑکوں میں سے ایک  ہے۔کوئی پوچھے کہ یہ سڑک کہاں جاتی ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ سڑکیں کہیں نہیں جاتیں۔ یہ وہیں کی وہیں پڑی ہوتی ہیں۔ یہ اگر جا سکتی ہوں تو پھر آبھی سکتی ہیں۔مگر اس بحث میں پڑنا بیکارہے۔یہ بھی کیا کم ہے کہ یہ اس شہر کی بس ایک سڑک ہے۔اس کانام بھی تو تاحال نہیں رکھا گیا۔ بے نام سی گمنام سی سڑک۔مگر بہتوں کو اپنے گھروں کی راہ دکھلاتی ہے اور بہت سوں کو یہاں سے گذار کر کام روزگار کیلئے روز کے حساب سے بے حساب یہاں وہاں ارسال کرتی ہے۔مگر مجھے کچھ او رکہنا ہے جو کہنا ہے  اس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کسی سرکاری بندے کی طبیعت پر ناگوار بھی نہیں گذرے گا۔کیونکہ ان کو اس سے کیا سروکار کہ سڑک کو کیا نقصان پہنچا ہے اورنقصان پہنچنے کا مزید اندیشہ ہے۔اس جیسی دسیوں او ربیسیوں سڑکیں ہیں جو اپنی حالت میں شاندار تھیں۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری لوگوں کی غفلت سے ا س طرح بدحال ہوئیں کہ انھوں نے اس کی طرف منہ موڑ کر دیکھا بھی نہیں۔پھر ہر گاہ اس شہرِ گل رخاں میں ان سڑکوں کے جال بچھے ہوئے ہیں۔ مگر جو سڑکوں کے سرکاری رکھوالے ہیں وہ تو اس نگہبانی کو چھوڑ کر کسی اور کام میں یوں اُلجھے کہ نہ تو بلدیہ کے نمائندوں نے اس قسم کی سڑکوں پر توجہ دی کہ سالو ں تو بلدیاتی حکومتیں ہی قائم نہ تھیں۔اس سڑک کے آر پار کے رہائشی بھی اپنی سرشت میں اسی سرزمین کے غافل باشندے ہیں۔جن کوذمہ داری کا خیال آنا بند ہوگیا ہے۔جن کو گھروں تک لے کر جانے والی پھر واپس بازار و کاروبار کیلئے لے کر آنے والی اس راہداری کو خراب حالی سے بچانے کیلئے ان رہائشیوں میں کوئی سرگرمی نہیں رہی۔چونکہ میں اس سڑک پر روزانہ دو چار بارتو کم از کم گذرتا ہوں۔ میں گذشتہ پانچ برسوں سے اس کو اسی بدحالی کی حالت میں دیکھ رہاہوں۔شاید ان سالوں میں فنڈ آئے بھی ہوں اور کسی کوملے بھی ہوں۔آئے ہوں گے ملے ہوں گے۔مگر ہمیں کیا۔یہ سڑک مین چوک سے بائیں موڑ کاٹ کر پخہ غلام کی جانب جاتی ہے۔یہ سڑک کبھی خوبصورت ہوا کرتی تھی۔ کچھ آدم زاد آئے او راس سڑک کو چھید کر کدالوں سے اس میں سے غاریں نکال کر چلتے بنے۔پوچھا کیا ہو رہا ہے۔کہنے لگے گاؤں میں سوئی گیس کی قلت ہے۔ اس لئے نئی پائپ لائن بچھارہے ہیں۔ تاکہ گیس فراواں ہو جائے اور کھل کر دستیاب ہو۔ خوش ہوئے کہ چلو گھروں کے چولھوں پر جو برف جمی رہتی ہے وہ پگھلے گی اور ہنڈیا چڑھے گی۔ مگر ہمیں کیا معلوم کہ یہ ہانڈی تو لکڑی کی ہنڈیا تھی جو ایک بار ہی چڑھے گی۔پھر چولھے ہمیشہ کیلئے خاموش ہو جائیں گے۔ اس کے بعد یہاں کے مکینوں کے گھروں میں سلینڈروں کا راج ہوگا اور پاس کے دکاندار جو جنرل سٹور چلاتے ہیں وہ اب گیس کے سیلنڈر کی بھرائی کا کاروبار شروع کر دیں گے۔بہت خوشی ہوئی تھی ہمیں۔ کیونکہ کسی بہانے خوشحالی نے یہاں قدم رکھا تھا۔ مگر دوفرلانگ کی اس سڑک میں چھان کی طرح سوراخیں ڈال کر اس میں نئی پائپ لائن ڈال دی گئی۔ہم خوش ہوئے کہ اب زندگی میں کسی سہولت کا چہرہ تو دیکھیں گے۔ مگر ہائے افسوس گیس بھی کہا ں آتی الٹا جو پہلے سے سوئی گیس موجود تھی وہ بھی گدھے کے سر پر سے سینگوں کی طرح غائب ہو گئی۔ سڑک کی خوبصورتی کے چاند کو گرہن لگ گیا۔ مگر یہ گرہن گھنٹہ بھر کانہ تھا۔پورے سال کا تھا۔برس بیت گیا تو امید بندھ گئی کہ شاید اب ان کو ہوش آ جائے کہ ہم یہ کیا تباہی مچا کر آگئے ہیں۔مگر ایک اور سال اور پھر سال پہ سال اور آج پانچ سال ہونے آئے ہیں۔یہ سڑک جب سے برباد ہوئی تو اس کی آباد کاری کا ڈول کسی نے نہ ڈالا۔ یہ سڑک جگہ جگہ سے اونچے نیچے ٹیلوں پر مشتمل ہے۔کھڈے کھود کر جانے والے ایسے گئے کہ بھول بھرکر بھی انھوں نے یا کسی او رمحکمہ تعمیر کے اہل کاران نے یہاں کا رخ نہیں کیا۔سڑک ویسے کی ویسے پڑی ہے۔جس پر ایک وقت میں ایک ہی گاڑی گذر سکتی ہے۔اگر دوگاڑیاں آمنے سامنے آجائیں تو ٹیلوں او رمٹی کے اٹھے ہوئے موڑے ان کی راہ میں خلل انداز ہو جاتے ہیں۔اب موجودہ وقت میں کون سی گیس ہے جو ماضی میں اس سڑک کو برباد کرنے کے وقت ہوتی۔یہ تو نہ پورے شہر میں ہے اور نہ ہی ملک میں ہے۔نہیں آنا تھا نہ آتی مگر اس سڑک کو تو تاخت وتاراج نہ کرتے۔اس سڑک سے ملحقہ دلہ زاک روڈ کی مرمت کی باری بھی تو برسوں بعدآئی تھی۔ہمارے ہاں محکموں کی آپس میں کوئی رابطہ کاری نہیں ہے۔اگر سوئی گیس والوں نے تکلف کر کے سوئی گیس کے پائپ بچھا دیئے۔جب یہ لوگ کھڈے کھود کر چلے گئے تو پھر تعمیرا ت کے محکمے والوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی نہ چلی کہ یہ بھاگم بھاگ آتے اور اس سڑک کوتارکول بچھا کر ہموار کر دیتے۔