یورپی یونین اور امریکہ نے مل کر روس کو تو دیوار سے لگا کر یوکرین جنگ میں کودنے پر مجبور کیا تاہم اب اسے لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں کیونکہ روس نے یورپی یونین پر توانائی کے دروازے بند کرنے شروع کر دئیے ہیں۔دوسری طرف یورپی یونین نے روس کی طرف سے یونین کے دو رکن ممالک کو گیس کی فراہمی روکنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بلیک میلنگ قرار دیا ہے۔ گزشتہ روز روس نے پولینڈ اور بلغاریہ کو گیس کی فراہمی روک دی تھی۔ یورپین کمیشن کی سربراہ اورزولا فان ڈیئر لائن نے کہا ہے کہ اس روسی اقدام کے اثرات صارفین تک پہنچنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ روس نے ان ممالک سے گیس کی قیمت روسی کرنسی روبل میں ادا کرنے کا کہا تھا، جس سے انکار پر گیس کی فراہمی روک دی گئی۔ فان ڈیئر لائن نے یورپی گیس درآمد کنندگان کو متنبہ کیا ہے کہ خریداری معاہدے میں اگر روبل میں ادائیگی پر اتفاق نہیں ہے تو اس کی خلاف وزری کرنے والے پابندیوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ روسی صدرپیوٹن کا کہنا ہے اگر کوئی ملک یوکرین کی جنگ میں مداخلت کرنے کی کوشش کرے گا، تو اسے برق رفتاررد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔روس کے صدر پیوٹن نے کہا کہ یوکرین کی مدد کرنے والے وہ ممالک جو یوکرین میں اس کاروائی کے دوران کسی ایک جانب سے مداخلت کرتے ہیں اور روس کے لئے ناقابل قبول سٹریٹیجک خطرات پیدا کر رہے ہیں،
انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے رد عمل میں ہمارا جوابی گھونسا برق رفتار ہو گا۔ پیوٹن نے سینٹ پیٹرزبرگ میں قانون سازوں کے ساتھ بات چیت میں بیلسٹک میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کا واضح حوالہ دیتے ہوئے کہا، ہمارے پاس اس کے لئے ایسے تمام تر ساز و سامان اور آلات موجود ہیں جن پر ہمارے علاوہ کوئی دوسرا فخر نہیں کر سکتا۔ان کا مزید کہنا تھا ہم ان پر بہت فخر یا زیادہ باتیں نہیں کریں گے،ضرورت پڑنے پر ہم ان کا استعمال کریں گے اور میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی اسے اچھی طرح سے جان لے۔ ہم نے اس بارے میں تمام فیصلے پہلے ہی کر لئے ہیں۔روسی رہنما نے کسی مخصوص ہتھیار کا اس موقع پر ذکر نہیں کیا تاہم انہوں نے حال ہی میں سرمٹ نامی ایک نئے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے کامیاب تجربے کی خود ہی سرپرستی کی تھی۔ سرمٹ میزائل ایک ساتھ 10 یا اس سے بھی زیادہ جوہری وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے بہت جلد تعینات کرنے کا ارادہ بھی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ روسی صدرپیوٹن نے قانون سازوں سے بات چیت میں کہا کہ انہوں نے یوکرین کے خلاف جو خصوصی فوجی آپریشن جاری کر رکھا اسے انجام تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے یوکرین میں جاری جنگ کو بھڑکانے کی ذمہ داری نیٹو ممالک اور ان کے اتحادیوں پر عائد کی۔ان کا کہنا تھا کہ جو ممالک تاریخی طور پر روس پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہے ہیں‘انہیں ہمارے جیسے خود کفیل اور بڑے ملک کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا وجود ہی ان کے لئے خطرہ ہے لیکن یہ بعید از حقیقت بات ہے۔ در اصل وہ خود پوری دنیا کے لئے خطرہ ہیں اور دیکھا جائے تو روسی صدر کا یہ کہنا زیادہ غلط بھی نہیں کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے مشرق وسطیٰ سے لے کر افغانستان تک ہر جگہ جنگ کے شعلے بھڑکائے۔