الہان عمر کا دورہ پاکستان

امریکی کانگریس کی رکن ”الہان عمر‘‘کا پانچ روزہ دورے کو پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے نکتہئ نظر سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔ الہان عمر اپنے دورے کے پہلے ہی دن پاکستان کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھائی نظر آئیں لیکن اُن کے دورے کی حمایت و پسندیدگی سے زیادہ مخالفت اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا لیکن الہان عمر کے ساتھ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ امریکہ میں بھی اُن کے ہر کام اور ہر پیغام پر لوگوں کو اعتراض ضرور ہوتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ الہان عمر اِنہی تنازعات کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں زیربحث رہتی ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ ”ہم طالب شہرت ہیں‘ ہمیں ننگ سے کیا کام …… بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ (نواب مصطفی خان شیفتہ)۔“الہان عمر کا دورہئ پاکستان سرکاری تھا اور اِس دوران حیرت انگیز طور پر اُن کی پہلی ملاقات سابق وزیرِاعظم عمران خان سے ہوئی‘ جو اِن دنوں اپنی حکومت کے خلاف امریکی سازش کے بیانیے کو سیاسی نکتہ بنائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی رکن کانگریس اور ان کے وفد کی ملاقات پاکستانی عوام کے لئے دلچسپی اور توجہ کا باعث بنی۔

الہان عمر نے عمران خان سے ملاقات کے بعد وزیرِاعظم شہباز شریف‘ صدرِ مملکت عارف علوی اور دیگر سرکاری عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کیں لیکن عمران خان سے ملاقات ہی سوشل میڈیا پر دلچسپی اور توجہ کا مرکز بنی رہی۔ ناقدین نے امریکی سازش پر تبصرے کئے تو پارٹی رہنماؤں نے فخر کے ساتھ ملاقات کی تصاویر اور تفصیلات شیئر کیں۔ الہان عمر صومالی نژاد امریکی ہیں جن کا بچپن کینیا میں تارکین وطن کے کیمپ میں گزرا اور پھر وہ سکالر شپ کی مدد سے امریکہ پہنچیں۔ 1995ء میں امریکہ پہنچنے والی الہان عمر چھتیس سال کی عمر میں امریکی کانگریس کی رکن بنیں۔ وہ امریکی کانگریس کی پہلی مسلمان رکن بننے کا بھی اعزاز رکھتی ہیں اور فلسطینی نژاد راشدہ طلیب اس اعزاز میں ان کی شریک ہیں۔ ان دونوں مسلم خواتین کی امریکی کانگریس کے دوہزاراٹھارہ کے وسط مدتی انتخابات میں کامیابی اس لئے بھی اہم تھی کہ اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ افریقی نژاد امریکیوں اور مسلمانوں سے متعلق سخت بیانات دے رہے تھے۔ الہان عمر دوہزارسولہ میں پہلی انتخابی کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور منی سوٹا نامی امریکی ریاستی اسمبلی کی رکن بنیں۔

وہ مسلمان اور افریقی نژاد ہونے کی وجہ سے بھی امریکی میڈیا اور اپوزیشن کے نشانے پر رہتی ہیں اور وہ خود بھی ایسے بیانات دیتی ہیں جن سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔ الہان عمر انتخابی مہم کے اخراجات میں بے قاعدگیوں پر رقم واپسی اور جرمانے کا بھی سامنا کرچکی ہیں‘ ان پر ٹیکس بے قاعدگی کا بھی الزام لگا جو بعد میں درستگی ریکارڈ کے بعد ختم ہوگیا۔ الہان امریکی خارجہ پالیسی اور فوجی پالیسیوں کی بھی ناقد ہیں۔ جون دوہزاراکیس میں الہان نے ایک ٹویٹ کی کہ ”ہم نے امریکہ‘ حماس‘ اسرائیل‘ افغانستان اور طالبان کی جانب سے ناقابلِ تصور بربریت دیکھی ہے“ اس ٹویٹ پر بھی انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ناقدین نے کہا کہ الہان نے امریکہ اور اسرائیل کو حماس اور طالبان کی صف میں کھڑا کر دیا۔ الہان کی بڑی سیاسی کامیابی کانگریس سے اسلاموفوبیا کے خلاف بل منظور کروانا ہے‘ ذہن نشین رہے کہ امریکی کانگریس کے ارکان امریکی مفادات کے ساتھ چلتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اور ان کے دورے پر کسی کا خوشیاں منانا سمجھ سے بالاتر ہے۔