کیا آپ کو معلوم ہے مگر آپ کو معلوم نہ ہو تو پھر اور کون ہے جس کو پتہ ہوگا۔جی ہاں فی لیموں بارہ روپے۔گذشتہ سے پیوستہ روز زناٹے کی گرمی تھی۔ بازار سنسان پڑے تھے۔سڑکیں خالی تھیں۔ دھوپ کی تپش اتنی کہ کسی کا باہر نکلنے کو رسک لینے کا ارادہ نہ تھا۔ یہ تو جب شام کی اذان کے قریب ہونے کا وقت آیا تو ہم بھی دوڑے۔ کیونکہ گھر والیوں نے کہا شربت میں ڈالنے کے لئے لیموں لے کر آؤ۔مگر لیموں کہا ں تھے جو ہم نکال لا ئیں۔ جس دکان پر جاؤ وہاں سے ٹکا سا جواب کہ لیموں نہیں ہیں۔ارے بھائی کیا ہوا۔اتنا جلدی لیموں ختم ہوگئے۔ مگر خود غور کیاتو اندازہ ہوا کہ گرمی کے ستائے ہوئے لوگ شام کو شربت میں ڈالنے کے لئے لیموں لینے نکلے ہیں تو دکانوں میں صفایا پھر گیاہے۔ایک دکان سے مل ہی گئے۔ اس نے پوچھا کتنے دوں۔ میں نے اول بھاؤ معلوم کیا کہ انداز ہ ہو آدھ کلو کتنے کے پڑیں گے۔ اس نے بولا پاؤ ایک سو اسی روپے۔ارے یہ کیا۔چکر سا آنے لگا۔خیر ہم نے دو سو روپے اس کے آگے بڑھا دیئے۔اچانک خیال آیا اور عرض گذاری دو سو کے دے دو۔پھر سوچا اور کہا سو سو کے دو جگہ دو۔ لیموں تو لئے مگر لیموں کم اورپتھر زیادہ لگ رہے تھے۔ راستے میں جاتے ہوئے ایک شاپر میں انگلیاں مار کر ٹٹولے تو اندازہ ہوا کہ سو روپے کے آٹھ لیموں پڑے تھے۔
گویا کم از کم ایک چھوٹا لیموں بارہ روپے میں ملا۔وہ بھی ایسا کہ غلیل کی تیار گولیاں۔ بعض جمے ہوئے جلے ہوئے سڑے ہوئے۔جن میں رس تومشکل سے ملتا۔ہاں بس نام کو لیموں تھے۔ایک طرح کی دل کی تسلی کہ لال شربت میں لیموں پڑے ہیں۔بعض سبزی والوں کے پاس سرے سے موجود ہی نہ تھے۔ مجھ سے فرمانے لگے حاجی صاحب وارا نہیں کرتے۔ہم لاتے ہی نہیں۔ کیونکہ الٹا گاہک کی خفگی مول لیناپڑتی ہے۔بعض بچوں کو مائیں دس کانوٹ دے کر بھیج دیتی ہیں کہ جاؤ دس کے لیموں لے کرآؤ۔مگر یہاں تو دس کاایک لیموں بھی نہیں پڑتا۔ جب تلک گرمی ہے کم از کم سبزی کی دکان میں سے یہ چیز اٹھانا بھول جائیں۔ پھر اگر کوئی نہیں خریدے گا تو سستا ہوگا۔ وگرنہ ڈیمانڈ او رسپلائی والا بازاری اصول ہے۔جتنا مانگو گے اتنا مہنگا ہوتا جائے گا۔ یہ نہ ہو ون ڈالرون لیموں تک بات پہنچ جا ئے یا ون یورو میں ایک لیموں والی دکان دستیاب ہو۔پھر جو لیموں ہم نے لئے ان میں رس بھی کہاں تھا۔ گھروالی بھلی مانس نے لکڑی کے سروتے کے ساتھ ان کو خوب کچلا اور اس جزرس میں لیموں کا پانی نکالنے لگی۔لیموں ان دنوں ایک جنسِ نایاب بن چکا ہے۔پہلے ٹماٹر اڑھائی سو روپے کلو تک پہنچے۔ مگران دنوں لیموؤں کا طوطی بول رہا ہے بلکہ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔پہلے سبزی خریدفرماتے تو دھنیا اور دو ایک سبز مرچیں او ر دو ایک لیموں بطور چُنگا سبزی کے تھیلے میں گاہکوں کو خوش کرنے کے لئے سبزی والا مفت ہی ڈال دیتا تھا۔مگراب سبزی فروش نے بھی گاہکوں کو ناراض کرنے کاٹھیکہ لے رکھاہے
۔لیموں سخت اتنے کہ انگوٹھوں او رانگلیو ں کے ساتھ ان کو دبوچ کر اورمروڑ کر بھی شربت کے گلاس میں اس لئے ڈالا نہیں جا سکتا کہ اس کے لئے بھی گھر کے کسی نوجوان بچے کی خدمات لینا پڑیں گی۔کیونکہ جن گذری عمر کے افراد کو جوڑوں کے درد والی زحمت ہو لیموں نچوڑنا تو اس کے بس کاکام نہیں کیونکہ دو چار لیموں نچوڑ کر انگلیوں میں دردوں کے ختم کرنے کی گولی بھی ساتھ کھانے کے بعد لینا پڑے گی۔لیموں کے بغیر بھی شربت بن سکتا ہے۔ اگر ہم اس پالیسی پر عمل کریں کہ جو چیز گراں ہو جائے اس کو خریدنا ترک کردیں۔اس طرح وہ چیز جب دکاندار کے پاس سے فروخت نہیں ہوگی تو تب وہ اس گلے سڑے آئیٹم کو نکالنے کے لئے سستے داموں بیچیں گے‘لیموں کی مانگ شربت کی وجہ سے زیادہ ہوئی کہ گرمی کے ان ایام میں شام کی اذان کے وقت دستر خوان پر لیموں ڈالا ہوا شربت نہ ہو تو دستر خوان کاسارا مزاکرکرا ہو جاتا ہے۔پہلے تو خواتین کے بیوٹی پارلروں میں بھی لیموں کی مانگ بہت زیادہ تھی۔مگر مجال ہے کہ اتنامہنگا ہوا ہو۔