بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی قریب

اقلیتوں کے خلاف تشدد تو اکثر ملکوں میں ہوتا ہے مگر بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مودی حکومت کی سرپرستی، ہندو انتہاپسندوں، سرکاری اداروں اور میڈیا کی ملی بھگت سے کیا جارہا ہے۔ اس طرح منظم انداز میں جو نفرت پیدا، پھیلائی اور بڑھائی جا رہی ہے اس کی وجہ سے حالات ان کی نسل کشی کی طرف جاتے دکھاء دے رہے ہیں۔مغربی ممالک نے چونکہ اپنے مفادات کی وجہ سے بھارت میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی، تعصب، تشدد اور انتہا پسندی سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اس سے بھارتی انتہاپسند مزید جری ہوگئے ہیں اور مسلمانوں کی نسل کشی اب زیادہ دور نہیں رہی۔ایک امریکی ادارے جینوسائڈواچ کے بان پروفیسر گریگوری اسٹینٹن کے مطابق بھارت نسل کْشی کے آٹھویں مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ پروفیسر گریگوری کے مطابق نسل کشی کا پہلا مرحلہ شہریوں کی درجہ بندی یعنی ”انھیں اور ہم“ میں تقسیم کرنا، دوسرا مرحلہ کسی قوم کے ثقافتی اور تاریخی نشانات مٹانا(جیسے مودی حکومت سینکڑوں شہروں کے مسلم نام تبدیل کرنا چاہتی ہے)،

تیسرا عصبیت یا امتیازی سلوک کرنا، چوتھا غیر انسانی سلوک کرنا، پانچواں استحصال اور استحصال کی منظم اور مربوط کوشش کرنا، چھٹا مرحلہ پولرائزیشن یعنی باہمی نفرت، دشمنی اور دوریاں پیدا کرنا، ساتواں نسل کشی کی تیاری وتربیت، آٹھواں ہراسانی و ایذا رسانی، نواں مرحلہ تباہ کرنا اور آخری مرحلہ جرم کا انکار ہے۔بھارت میں مسلمانوں کے حوالے سے بی جے پی اور اس کی مربی انتہاپسند تنظیموں کی پالیسی میں نسل کشی کے یہ سارے نشان اور مرحلے واضح ہوکر سامنے آچکے ہیں اور اب کوئی اندھا ہی ان سے انکار سکتا ہے۔ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے بھارت کے لئے پرامن بقائے باہمی اور تمام مذاہب کے عقائد اور رسومات کا احترام ہی واحد راستہ ہے مگر وزیر اعظم نریندرا مودی کی بی جے پی کی مرکزی اور علاقائی حکومتوں کی سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ پاکستان اور مسلمانوں سے وسیع عوامی نفرت پروان چڑھانے اور پھر خود کو ہندو دھرم کے تحفظ اور بھارت کو خالص ہندو ریاست بنانے کیلئے ناگزیر دکھانے میں ہی ان کا مفاد پوشیدہ ہے

اور اگر ایسا کرتے ہوئے بھارت میں جمہوریت، قومی یکجہتی اور انسانی آزادیوں کی صورت حال خراب اور ملک بدنام ہو تو بھلے ہو انہیں کوئی پروا نہیں ہے۔مودی حکومت نے نہ صرف مسلمانوں کی خوشنودی کی ضرورت نہیں سمجھی بلکہ انہیں انتہاپسندوں کے رحم وکرم پر بھی چھوڑ دیا ہے۔بھارت کے قیام کے بعد سے مسلمانوں کے لئے افطار اور عید ملن پارٹیاں منائی جاتی رہی ہیں مگر پہلی بار اس رمضان میں کوئی حکومتی افطار پارٹی منعقد نہیں کی گئی کیوں کہ آج کے بھارت میں مسلمانوں کا تہوار منانا جرم بن گیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انتہاپسندوں کو ان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے، حملوں پر اکسانے اور عملاً فسادات کروانے کی کھلی چھوٹ دے دی۔مختلف صوبوں میں گائے کے گوشت کی فروخت اور کھلی فضاؤں میں نماز ادا کرنا انتہاپسندوں کو قبول نہیں ہے۔ گائے ذبح کرنے کے نام پر مسلمانوں کی لنچنگ کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو مساوی شہری تسلیم نہیں کیا جارہا۔ بھارتی ریاست کرناٹک میں باحجاب طالبات کو ایک بار پھر امتحان دینے سے روک دیا گیا ہے۔

 اس نفرت کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اکیس اپریل کو جموں میں ایک مقامی فوجی کمانڈر نے افطار پارٹی منعقد کی جس میں وہ اپنے ماتحت اہلکاروں سمیت افطاری اور نماز کرتے دکھائے دئیے۔ اس نے ان کی تصاویر شیئر کردیں مگر انتہاپسندوں کی شدید تنقید کے بعد اسے یہ ٹویٹ ہٹانا پڑی سخت گیر ہندو تنظیموں کو مساجد میں اذان دینے پر اور تعلیمی اداروں میں مسلمان لڑکیوں کے حجاب پہننے پر اعتراض ہے اور مسلمان کسی ظلم پر احتجاج کریں تو ان کی جائیدادوں پر سرکار کی طرف سے بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ کئی ریاستوں میں ہندو انتہاپسندوں نے مساجد سے لاؤڈ سپیکروں پر اذان بند کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔