قومی ترجیحات کی درستگی ضروری

کسی بھی ملک میں آبادی اور وسائل کے درمیان توازن کو برقرار رکھنا بہت اہم ہے۔کیونکہ اسی طرح ہی ممکن ہے کہ ملک کی آبادی کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن ہو۔اس وقت دیکھا جائے تو ہمارے وسائل پر آبادی کا بے تحاشا بوجھ ہے جس کا علاج یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ان سے بھر پور استفادہ کیا جائے۔قدرت نے ہمیں بے پناہ وسائل سے نوازا ہے تاہم ان سے فائدہ اٹھانے کی ہماری کوششیں سست روی کاشکار رہی ہیں۔ صرف پانی سے بجلی پیدا کرنے کی بات کی جائے تو سارا منظر نامہ سامنے آجاتا ہے۔ بجلی کی کمی اور اس کے نرخ میں آئے دن کا اضافہ اس لئے ہورہا ہے کہ ایوب خان کے بعد کسی بھی حکمران نے ڈیمز بنانے کی طرف توجہ نہ دی صرف ہائیڈل ڈیموں یعنی پانی سے جو بجلی بنے وہ  اس بجلی سے عام آدمی کو سستی پڑتی ہے جو دوسرے ذرائع یعنی پٹرول وغیرہ سے بنے ہائیڈل ڈیم بنانے میں کافی وقت لگتا ہے اور صرف وہ ممالک بجلی کی کمی کا شکار نہیں ہوتے کہ جو تواتر سے ڈیم بناتے رہیں اس معاملے میں ہمارے اکثر حکمران  تیزی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔اب کچھ تذکرہ عالمی حالات کا ہو جائے جہاں تیسری عالمی جنگ کے منڈلاتے بادل گہرے ہوتے جار ہے ہیں اور روس یوکرین تنازعے میں آئے روز زیادہ خطرناک موڑ آتے رہتے ہیں۔ تازہ ترین حالات یہ ہیں کہ امریکہ نے جرمنی میں یوکرینی فوجیوں کی تربیت کا آغاز کر دیا ہے۔پینٹاگون کے مطابق امریکی افواج جرمنی میں فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے ساتھ یوکرینی فوج کو اب تربیت بھی فراہم کر رہی ہیں۔ محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ تربیت کی ذمہ داری فلوریڈا نیشنل گارڈ کو سونپی گئی ہے جو یوکرین کے فوجیوں کو جدید ہتھیاروں کے نظام کو سیکھنے میں وہ ان کی مدد کر رہا ہے۔کربی کا کہنا تھا کہ تربیتی پروگرام جرمن حکومت کے ساتھ ہم آہنگی سے چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ہم جرمنی کی طرف سے مسلسل حمایت کے لیے شکر گزار ہیں۔اب تک تقریباً 50 یوکرینی اہلکاروں کو طویل فاصلے تک مار کر نے والی توپوں کی تربیت دی جا چکی ہے۔ یوکرینی فوجیوں کو ریڈار سسٹم اور بکتر بند گاڑیوں کے استعمال کا بھی طریقہ کار سیکھایا جائے گا۔جان کربی نے بتایا کہ اس تربیت کا بیشتر کام اور ذمہ داری فلوریڈا نیشنل گارڈ کو سونپا گیا ہے۔ اسی امریکی یونٹ نے روسی حملے سے پہلے رواں برس فروری میں یوکرین کی افواج کو تربیت  فراہم کی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین کی فوج، بنیادی طور پر خود کو تربیت دینے والی ہے، کیونکہ یہ سب یوکرین واپس جائیں گے اور  وہاں اپنے دیگر ساتھیوں کو تربیت دیں گے۔ پینٹاگون کے ترجمان نے مزید کہا کہ یوکرینی افواج کی تربیت یورپ کے دیگر حصوں میں بھی ہو رہی ہے، تاہم انہوں نے ان مقامات کا انکشاف نہیں کیا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے مارچ کے اواخر میں کہا تھا کہ امریکی فورسز پولینڈ میں یوکرینی افواج کو تربیت دے رہی ہیں، لیکن بعد میں عسکری حکام نے یہ بیان واپس لے لیا تھا۔ادھر روس نے یوکرینی افواج کو مسلح کرنے کے خلاف مغربی ممالک کو خبردار کیا ہے۔ اس سے قبل مارچ میں روس نے مغربی ممالک کو متنبہ کرنے کیلئے پولینڈ کی سرحد کے قریب یوکرین میں ایک تربیتی مرکز پر حملہ بھی کیا تھا۔روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے امریکا اور نیٹو سے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ وہ یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کریں۔ چینی سرکاری نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے لاروف کا کہنا تھا کہ روسی عسکری کاروائیاں منصوبے کے تحت آگے بڑھ رہی ہیں اور اگر مغربی قوتیں اس مسلح تنازعے کا حل چاہتی ہیں، تو انہیں یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنی پڑے گی۔ نظر اب یہ آرہا ہے کہ روس اور مغربی ممالک سمیت امریکہ کے درمیان تلخیاں بڑھ رہی ہیں اور لگتا یہ ہے کہ مغرب نے روس کو یوکرین میں طویل جنگ میں پھانسنے کاارادہ کیا ہے۔ یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی اور افواج کو تربیت دینے کا جو سلسلہ اب شروع ہوا ہے اس سے حالات زیادہ خطرناک ہونے لگے ہیں۔ ایسے میں اگر روس نے ان یوکرینی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی اگر کوشش کی جو جرمنی یا دیگر پڑوسی ممالک میں تربیت حاصل کررہے ہیں تو لازمی طور پر جنگ کادائرہ یوکرین سے آگے دیگر یورپی ممالک تک پھیل سکتا ہے۔جہاں تک اس جنگ میں چین کے کردار کا معاملہ ہے تو اس نے نہ تو یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کی ہے اور نہ ہی مغربی ممالک کی پابندیوں کو تسلیم کیا ہے جو انہوں نے روس پر لگا رکھی ہیں بلکہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے چین اور رو س کے درمیان تجارت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یوکرین روس تنازعہ جلد حل ہونے والا نہیں اور ایک طرف اگر روس اپنے مقاصد کو حاصل کرکے رہے گا تو دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی بھی موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔