آج کل ہمارے سیاسی روئیے عدم برداشت اور صبروتحمل سے عاری ہوگئے ہیں جو پاکستان کی ساکھ کو متاثر کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ جو عدم برداشت اور اخلاقی اقدار کے زوال کی نشاندہی ہے اور اِس طرح کی اندھا دھند‘ جذبات سے بھرپور عوامی حمایت پر کسی بھی سیاسی جماعت کو فخر نہیں ہونا چاہئے لیکن ہر سیاسی جماعت کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ وہ ’سیاسی نفرت‘ پھیلانے کے جرم میں یکساں شریک ہے تو کیا یہ مقام فکر و تدبر نہیں کہ ہم بحیثیت قوم‘ اندرون و بیرون ملک مقیم پاکستان کس سمت میں بڑھ رہے ہیں اور اِس سفر کی منزل کیا ہوگی؟۔ جو لوگ مسجد نبوی شریف کی وسعت سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ مذکورہ مسجد اِس قدر بڑی ہے کہ اِس کے کسی ایک حصے میں ہونے والی سرگرمی کا دوسرے حصے میں موجود لوگوں کو علم بھی نہیں ہوتا۔ بنیادی طور پر مسجد نبوی کے 3 قدیمی دروازے (باب جبرئل‘ باب الرحمہ اور باب النسا) ہیں جبکہ مجموعی طور پر اِس کے 42 دروازے ہیں اور ہر سال مسجد کی توسیع ہوتی رہتی ہے۔ مسجد نبوی شریف کی موجودہ شکل و صورت بالخصوص سبز گنبد اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ ریاض الجنہ‘ منبر اور محراب سلطنت عثمانیہ کے دور (1517ء سے 1919ء) میں تعمیر کردہ یادگاریں ہیں اور اِن کے علاوہ باقی مسجد کی توسیع جدید و قدیم فن تعمیر کے امتزاج سے ہوتی رہتی ہے لیکن مذکورہ قدیمی حصے سے چھیڑچھاڑ نہیں کی جاتی جس کی ایک وجہ ’ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و تعظیم‘ بھی ہے کہ مسجد میں شورشرابے کا باعث بننے والا کوئی بھی کام نہیں کیا جاتا۔ حتیٰ کہ مسجد میں لگے پنکھے‘ صفائی کی مشینیں اور شٹل سروس کیلئے استعمال ہونے والی گاڑیاں بھی انتہائی کم آواز پیدا کرتی ہیں اور اِن کا انتخاب بھی اِس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ وہ کم سے کم آواز (شور) پیدا کریں لیکن جب اِسی مسجد کے باہر صحن میں زندہ باد اور مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگتے ہیں‘ دھکم پیل کی جاتی ہے‘ حملہ آور ہوا جاتا ہے‘ ایک دوسرے کو غیرمہذب الفاظ سے پکارا جاتا ہے‘ ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لپکا جاتا ہے‘ سر کے بال کھینچے جاتے ہیں‘ کوئی خاتون آس پاس شورشرابے کے ماحول میں خود کو غیرمحفوظ تصور کرتی ہے تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ اِس سے مسجد کی انتظامیہ کس قدر بڑے امتحان و آزمائش میں مبتلا ہوئی ہو گی کہ وہ گھتم گھتا سیاسی جذبات کو کس طرح ٹھنڈا کرے کہ اگر وہ ’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ کے دربار میں حاضر ہو کر بھی‘ اپنے مسائل خود حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اِس سے زیادہ بڑی غلطی کوئی دوسری نہیں ہو سکتی! عجیب و غریب مقام ہے کہ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے سب سے زیادہ بیت اللہ (مکۃ المکرمہ کی مسجد الحرام) اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کی حاضری کیلئے زائرین پاکستان سے جاتے ہیں۔ گلف نیوز کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ہر سال پچیس لاکھ سے زیادہ پاکستانی عمرے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جبکہ 2018ء میں یہ تعداد 17 لاکھ تھی جس کا مطلب ہے کہ ہرسال اوسطاً ایک سے ڈیڑھ لاکھ پاکستانی عمرہ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن کیا تمام زائرین کو اسلام کے مقدس ترین مقامات کی تعظیم و آداب سے متعلق شعور اور معلومات بھی ہوتی ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو مسجد نبوی شریف کے باہر‘ صحن یا مدینہ منورہ کے کسی بھی حصے میں سیاسی احتجاج نہ ہوتا۔ وقت ہے کہ حج و عمرہ زائرین کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے اور اُن سے بیان حلفی لیا جائے کہ وہ سعودی عرب میں اپنے قیام کے بنیادی مقصد جو کہ عبادت ہے کو پیش نظر رکھتے ہوئے زیارات کے دوران کسی بھی قسم کے سیاسی احتجاج یا سیاسی بیانئے کا حصہ نہیں بنیں گے۔