ایک زمانہ تھا کہ ہمارے صوبے میں معدودے چند پیشہ ورانہ کالج تھے۔ میٹرک کے بعد زیادہ تر نوجوان روزگار کی تلاش میں سرگرم ہوجاتے۔ جو طلبا امتحان میں اعلی پوزیشن حاصل کرتے اور جن کے والدین استطاعت رکھتے وہ آگے اپنی تعلیم جاری رکھتے۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ وہ ڈاکٹر بنے۔ امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا کے اخبارات میں انٹرویوز چھپتے اور جب کسی سے پوچھا جاتا کہ وہ مستقبل میں کیا بننا چاہتا ہے تو اکثریت جواب دیتی کہ وہ ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔ ہم نے ایسے بہت سارے انٹرویوز پڑھے تھے اور اکثر اوقات سوچتے کہ وہ دُکھی انسانیت کی خدمت کا عزم لیکر میڈیکل کالجوں میں داخل ہونے اور تحصیل علم کے بعد باہر آنے والے ڈاکٹر کہاں گئے۔ اس سوال کا جواب ہمیں تب ملا جب ہم سعودی عرب کے شہر ریاض پہنچے اور ڈاکٹروں کے فلاحی کاموں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ سعودی عرب میں کم و بیش 26 لاکھ پاکستانی زندگی کے مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہیں۔ ان میں اعلی تعلیم یافتہ، پیشہ ورانہ اہم عہدوں پر فائز ہم وطن بھی ہیں اور محنت کش مزدور بھی۔ اکثریت اخرالذکر کی ہے۔ یہ محنت کش جب بیمار پڑجاتے ہیں توان کے پاس علاج کیلئے معقول رقم نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں میڈیکل انشورنس کا رواج بھی نہیں ہے اس لئے ان کو علاج کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ سفارتخانے کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ ہر ایک کی طبی ضرورتوں کا خیال رکھے۔ خوش قسمتی سے دیار حرم میں جو پاکستانی ڈاکٹر کام کرتے ہیں وہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہیں اور نادار مریضوں کیلئے رضاکارانہ طور پر باقاعدگی سے ریاض اور جدہ میں طبی کیمپوں کا انعقاد کرتے ہیں جہاں ان کو علاج کی سہولتیں فراہم کی جاتیں ہیں اوربلا معاوضہ دوائیاں بھی دی جاتیں ہیں۔ بیرون ملک یہ ایک بڑی خدمت ہے جس سے ہمارے ہزاروں ہم وطن مستفید ہوتے ہیں۔یہاں فری کیمپ لگانے والے رضاکار ڈاکٹروں کی فہرست طویل ہے لیکن ہم اس وقت ڈاکٹر خلیل الرحمن کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ جدہ میں اپنے قیام کے دوران پاکستان ویلفیئر سوسائٹی کے سرگرم رکن تھے۔ سوسائٹی کا کام سعودی عرب میں رہنے والے محنت کشوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنا تھا۔ یہ سوسائٹی 2006 میں قائم ہوئی اور اگلے سال پاکستان میں رجسٹر کی گئی۔ اس کے زیر اہتمام اور سعودی عرب میں رہنے والے پاکستانیوں کے تعاون سے ایبٹ آباد میں 2015 میں گردے کے مریضوں کیلئے بیس بستروں کا ایک ہسپتال پاکستان کڈنی سنٹر کے نام سے بنایا گیا جس میں توسیع کا عمل اب بھی جاری ہے اور اگلے سال اس میں باون بستروں کی گنجائش ہوگی۔ یہاں گردے کی ٹران سپلانٹ کی سہولت بھی ہوگی۔پاکستان کڈنی سنٹر میں گردے کے مریضوں کو ہر طرح کی طبی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ یہاں بیرون ملک مقیم نامی گرامی پاکستانی ڈاکٹر بھی آتے ہیں اوربلا معاوضہ مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں۔ نادار مریضوں سے کوئی فیس نہیں لی جاتی ہے۔ یہاں ڈایالسس اور دوائیاں مفت ہیں۔ کئی مریضوں کو ہفتے میں تین دفعہ ڈایالسس کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہاں گردے سے پتھری نکالنے کا بھی علاج ہے۔ مختصراً یہاں آکر ہزاروں مریض شفایاب ہو چکے ہیں۔ ہسپتال میں علاج کے علاوہ سنٹر کے پاس موبائل سروس کی سہولت بھی ہے۔ موبائل ٹیم دور دراز مقامات پر جا کر عوام کو گردوں کی بیماریوں سے آگاہ کرتی ہے اور موقع پر معائنہ کرکے دوائیاں فراہم کرتی ہے۔ اس کی کوئی فیس نہیں لی جاتی۔درحقیقت ہمارے ہاں علاج کی سہولیات ناکافی ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے صحت کی مناسبت سہولیات کا اہتمام حکومت کیلئے بھی مشکل ہے۔ ایسے میں غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کا کردار اہم ہو جاتا ہے تاہم اسکے لئے ضروری ہے کہ ایسے اداروں اور تنظیموں کے ساتھ عوام دل کھول کر تعاون کریں تاکہ اس کارخیر کا دائرہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلایا جا سکے علاج وہ سہولت ہے جس کو بنیادی اہمیت بھی حاصل ہے تاہم یہ مہنگی بھی ہے اور اس کی مفت فراہمی تب ہی ممکن ہے جب اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی انفرادی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اس میں اپنا حصہ ڈالیں‘ بیماری تو کوئی بھی اچھی نہیں ہوتی لیکن جن لوگوں کے گردے ناکارہ ہو جائیں اور وہ ڈایالسس پر ہوں جس کی ان کو ہفتے میں دو سے تین بار ضرورت پڑتی ہو ان کیلئے پاکستان کڈنی سنٹر ایبٹ آباد جیسی سہولتیں ہونی چاہئے۔ شکر ہے کہ درد دل رکھنے اور دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ڈاکٹر ہمارے ہاں موجود ہیں ورنہ بے بس اور نادار مریض کہاں جاتے۔ ہمیں چاہئے کہ ایسے لوگوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کریں بلکہ نیک کاموں میں ان کی مدد بھی کریں۔