لوڈشیڈنگ کا مستقل حل

 ایسے حالات میں کہ ایک بار پھر بجلی لوڈ شیڈنگ نے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے، حکومت کی طرف سے یہ اعلان خوش آئند ہے کہ عید الفطر کے 3 دن بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس مقصد کیلئے پاورڈویژن کی جانب سے تمام پاورجنریشن کمپنیوں کو مطلوبہ تیل اور گیس فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جب کہ پاور ڈویژن نے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے بجلی کی طلب اور رسد کی تفصیلات بھی مانگ لی ہیں۔ ساتھ ہی وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ یکم مئی سے بجلی بحران کی صورتحال بہتر ہوجائے گی، لوڈشیڈنگ کی اصل وجہ ایندھن کی عدم فراہمی ہے، 5800میگاواٹ بجلی کے یونٹ بند پڑے ہیں، اگلے ہفتے 45ہزار ٹن فرنس آئل مل جائے گا۔ خیال رہے کہ ملک بھر میں بجلی کا شدید بحران ہے کیوں کہ شارٹ فال 8 ہزار 500میگاواٹ سے بڑھ گیا ہے،جس کی وجہ سے شہریوں کی تکالیف و مشکلات میں اضافہ ہوچکا ہے،شہری علاقوں میں چھ سے آٹھ گھنٹے اور دیہی علاقوں میں دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔
ہر سال کی طرح اس مرتبہ ایک بار پھر گرمی کی شدت میں اضافے سے شارٹ فال بھی بڑھنے لگا،ملک میں بجلی کا شارٹ فال 8 ہزار 500میگاواٹ سے بڑھ گیا، ملک بھر میں 12گھنٹے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے، بجلی کی مجموعی پیداوار 18ہزار 400میگاواٹ ہے، ملک بھر میں بجلی کی طلب 27ہزار 200میگاواٹ ہے‘ پن بجلی ذرائع 3 ہزار 500میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ سرکاری تھرمل پاورپلانٹس صرف 900 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں، نجی شعبے کے بجلی گھروں کی پیداوار 14 ہزارمیگاواٹ ہے، گیس اور ایندھن کی شدید قلت کے باعث تھرمل پلانٹس سے بجلی کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ڈیمانڈ اور سپلائی میں موجود فرق تیزی سے بڑھ رہا ہے، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے سات سے آٹھ ہزار میگاواٹ کے درمیان شارٹ فال ہے اور اگر آنے والے دنوں میں گرم اور خشک موسم برقرار رہا تو اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
کیا ہی بہتر ہو کہ اس مسئلے کو عارضی بنیادوں پر ہینڈل کرنے کی بجائے اس کا مستقبل حل تلاش کیا جائے۔اب بات ہوجائے عالمی منظر نامے کی تو یہاں پر بہت بڑی اور دور رس قسم کی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ اور لگتا ہے یہ ہے کہ نئی سرد جنگ، سابقہ سرد جنگ سے زیادہ شدید قسم کی ہے۔ کیونکہ پچھلی سرد جنگ کے دوران کچھ ممالک تو غیر جانبدار بھی رہے تاہم اس مرتبہ لگتاہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو کسی نہ کسی بلاک کاحصہ بننا پڑیگا۔ یورپ میں سوئٹزرلینڈ، سویڈن اور آئرلینڈ جیسی یورپی ریاستیں ان ملکوں میں شمار ہوتی ہیں جو اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھتی تھیں۔ اب یوکرین پر روسی حملے کے بعد کئی ایسے ممالک اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت پر نظرثانی کی سوچ رکھتے ہیں۔نیٹو سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ اگر فن لینڈ اورسویڈن نے اس دفاعی اتحاد میں شامل ہونے کی درخواست دی، تو نیٹو انہیں خوش آمدید کہے گا۔
 واضح رہے کہ یہ دونوں ممالک برسوں سے خود کو غیر جانبدار قرار دیتے ہیں لیکن یوکرین پر روسی فوجی حملے کے بعد سے ان کی سوچ میں تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے اور یہ مغربی دفاعی اتحاد کی صفوں میں شمولیت کا ارادہ بنا رہی ہیں۔ان ریاستوں کی ممکنہ رکنیت کے حوالے سے بنیادی سوالات کی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد خطرے کی کیفیت تو موجود ہے۔اس وقت دنیا میں سوئٹزرلینڈ کو غیر جانبداری کی علامت قرار دیا جاتا ہے 1815 میں سوئس حکومتی نمائندوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ تنازعات سے دور رہیں گے اور کسی ملک کو پیشہ ور فوجی فراہم نہیں کریں گے۔یورپی طاقتیں بھی یقین دہانی کرا چکی ہیں کہ اس ملک کو تنازعات سے دور ہی رکھا جائے گا۔ یہ ایک بین الاقوامی ضمانت ہے اور یہ ملک مضبوط غیرجانبداری کی علامت ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد بھی سوئٹزرلینڈ کے موقف میں لچک نہیں دیکھی گئی۔ اس نے ہتھیار اور جرمن ٹینکوں کیلئے بارود فراہم نہیں کیا۔ تاہم اب صورت حال تبدیل ہو گئی ہے اور روسی فیڈریشن پر عائد پابندیوں کا حصہ بنتے ہوئے اس ملک نے بھی صدر پوٹن اور وزیر خارجہ لاوروف پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
1955میں آسٹریا نے مستقل غیر جانبداری برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اتحادی افواج کے انخلا کا نتیجہ تھا۔ بعد میں اس فیصلے میں نرمی لاتے ہوئے ویانا حکومت نے نیٹو کے رکن ملکوں کی فوجی مشقوں میں شرکت بھی کی تھی۔ اب یوکرینی جنگ نے آسٹرین غیرجانبداری پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس طرح برطانیہ سے سن 1921 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے آئرلینڈ غیر جانبدارانہ پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس کا اظہار دوسری عالمی جنگ میں بھی دیکھا گیا۔ آئرش آبادی کی اکثریت نیٹو مخالف ہے۔ اس وقت آئرلینڈ میں غیر جانبداری برقرار رکھنے پر سیاسی اور عوامی حلقے بحث جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یوکرین کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کرتے ہوئے بھی آئرش وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ان کا ملک عسکری اعتبار سے نیوٹرل ہے۔ 
اس طرح فن لینڈ کے سابق وزیر اعظم الیکسانڈر اسٹوب نے رواں برس مارچ کے اختتام پر کہا تھا کہ ان کا ملک نیٹو کا رکن نہیں لیکن جلد ہی رکنیت کی درخواست دے سکتا ہے اور اب یہ بات ہفتوں یا مہینوں میں طے پا جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کے حوالے سے عوامی حمایت بتدریج بڑھ رہی ہے۔ فن لینڈ کا روس کے ساتھ تیرہ سو کلومیٹر طویل بارڈر ہے۔سویڈن کی غیر جانبدارانہ پوزیشن اس ملک کے دستور میں موجود ہے۔ انیسویں صدی کے بعد سے یہ ملک کسی تنازعے میں شامل نہیں رہا۔ یورپی یونین کا رکن بننے کے بعد بھی سویڈن نے خود کو غیرجانبدار رہنے دیا۔ اب یوکرین کی وجہ سے سویڈش حکومت کا موقف تبدیل ہوا ہے اور اس نے ٹینک شکن میزائل یوکرین کو فراہم کیے ہیں۔یعنی اس بار اگر روس، امریکہ اور چین کے درمیان سر د جنگ کا ماحول پروان چڑھتا ہے تو یہ ماضی سے بالکل مختلف اور زیادہ شدید مخاصمت ہوگی جس سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔