ہر سال کی طرح‘ اِس مرتبہ بھی ’عیدالفطر‘ کے موقع پر ناجائز منافع خوری عروج پر ہے اور ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی پشاور کی ضلعی انتظامیہ اِس عزم کا اظہار کر رہی ہے کہ وہ ناجائز منافع خوری کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کرے گی۔جو احسن قدم ہے کیونکہ کسی بھی انتظامیہ کا اولین مقصدیہی ہونا چاہئے کہ وہ عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے دن رات مستعد رہے تاہم زمینی حقائق اس سے ذرا مختلف ہے یعنی مسائل کے حل کے لئے جس تیزی کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آرہی۔ یہ صورتحال کسی بھی صورت عام آدمی (صارفین) کے حق میں نہیں جنہیں عمومی (روزمرہ) خریداری سے لیکر آمدورفت کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ سے استفادے کی صورت ”مجبوراً“ مقررہ شرح کرائے سے زائد ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ عید ہو یا بنا عید‘ بین الاضلاعی اور بین الصوبائی راہداریوں (روٹس) پر چلنے والی گاڑیاں میں سفر ’من مانے کرائے‘ اَدا کئے بغیر ممکن نہیں ہوتا اور اِس قانون شکنی کو درست کرنے کیلئے 9 بنیادی وجوہات ہیں۔. بین الصوبائی اور بین الاضلاعی روٹس پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ 100 فیصد نجی شعبے کی ملکیت ہے‘ جو کسی بھی موقع پر جبکہ اِن کی خدمات کی طلب میں اضافہ ہو‘ زیادہ آمدنی کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سے متعلق قوانین و قواعد اِس قدر لچکدار بنائے گئے ہیں کہ اِن کی خلاف ورزی کرنا کوئی نہ تو سنگین جرم ہے اور ہی کوئی ایسا جرم کہ جس کی کڑی سزا کے خوف سے کرائے ناموں پر عمل درآمد نہ کرنے جیسی لاقانونیت کی حوصلہ شکنی ہو۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے کو انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے استعمال سے منظم کیا جا سکتا ہے۔
چند نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے شروع دن یا بعدازاں ٹکٹوں کی ’آن لائن‘ فروخت کا نظام اپنا تو رکھا ہے لیکن بہت سی چھوٹی بڑی ٹرانسپورٹ کمپنیاں ’الیکٹرانک ٹکٹ گھر‘ بنا کر اور باقاعدہ وصول شدہ کرائے کی رسید دیکر من چاہے کرائے وصول کر رہی ہیں‘ یہ عمل سارا سال جاری رہتا ہے، اِس کے لئے حکومت کو اپنے طور پر ’آن لائن (on-line)‘ اور ’آف لائن(off-line)‘ ٹکٹ فروخت کا صوبائی نظام وضع کرنا چاہئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو مال برداری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور مسافروں کو پاؤں سمیٹ کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ یہ عمل کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے اِس بات کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں‘ جو اِس جسمانی مشقت اور ذہنی اذیت بھرے تجربے سے گزرتے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ ٹرانسپورٹ کے حوالے سے عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے۔
ان کو ایک تو عید کے دنوں میں ترجیحی بنیادوں پر ختم کرنا ضروری ہے اور یہ سلسلہ محض عید کے دنوں تک محدود نہ رہے بلکہ مستقل بنیادوں پر ان مسائل کا حل نکالنا ضروری ہے اور یہ کوئی ناممکن امر نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک میں ٹرانسپورٹ کا نظام وہ بنیادی اکائی ہے جس کو دیکھتے ہوئے باقی شعبوں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اگر کہیں ٹریفک منظم ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ اس قوم کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں نظم و ضبط کا دور دورہ ہو گا اور جہاں ٹریفک بدنظمی کا شکار ہو اور قواعد و ضوابط کو نظرانداز کیا جارہا ہوں تو یہ اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی بدنظمی اور بے قاعدگی کا دور دورہ ہوگا۔