عید قریب آنے کے ساتھ عید کی خریداری کیلئے رش بڑھ رہا ہے۔یہ تو ہر سال ایسا ہوتا آیا ہے۔روپے پیسے کے برے حالات جیسے بھی ہوں۔ اگر ملک کی حکومت کو درپیش ہوں یاعوام اس تنگی سے گذ ررہے ہوں۔ مگر دیکھا یہ ہے کہ ہر طرح عیدسے پہلے کی ان راتوں میں بازار جگ مگ جگ مگ کرتے ہیں۔ گاہک اتنے ہوتے ہیں کہ تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔جیسے تیسے کہیں غربت ہو جو گھر کی دیواروں پر بال کھولے سو رہی ہو مگر اسی گھر کے افراد زن و مرد ان بازاروں میں اپنی بچیوں او رخواتین کے ساتھ موجود ہوں گے اور عید کی خریداری کیلئے اپنی جیبوں کی طرف ہاتھ بڑھانے کو تیار کھڑے ہوں گے۔اسی موقع سے اچکے بھی فائدہ حاصل کر تے ہیں۔خوشی تو کیا میت کے موقع پر بھیڑ بھاڑ میں لاکھوں کے موبائل اگلے کی جیب سے اچک لیں گے۔ اس قسم کے بازاروں کے ہجوم سے جہاں آنکھوں میں سے سرمہ نکالنے والے موجود ہوتے ہیں۔ وہیں اوباش نوجوانوں کا بھی گذران ہو تاہے۔
لاحاصل او ربیکار آوارہ گردی کرتے ہیں۔ ہماری طرح جیب خال مخال ہوگی اور سیر سپاٹے کے یہ شوقین پارکوں میں جانے کی بجائے روشنیوں کے سنگ اپنی آنکھوں گروی رکھنے کوبازار کے ایک کونے سے انٹر ہوں گے اور شہر کے ان پیوستہ بازاروں میں سے سوئی دھاگے کی طرح ٹانکے پھرتے ہوئے کبھی ایک جا کبھی دوسری جگہ سے سر نکال لیں گے۔لڑائیاں اور فساد ہو جائیں گے مگر مجال ہے کہ ان کے کانوں پرجوں تک رینگے۔انہی بازاروں میں آپ کوکچھ لڑکے اودھم مچاتے اور موٹر سائیکل تیز چلا کر ان کے سائیلنسر نکال کر ہجوم کو چیر کر فراٹے بھرتے ہوئے آگے جاتے ملیں گے۔ ان کو اپنی جوانی پر بھی ترس نہیں آتا۔ یہ رش اور اس میں یہ تیز رفتاری سے بائیک چلانا کوئی کارنامہ نہیں بلکہ انتہائی نامعقول حرکت ہے۔جس کی وجہ سے خود کو بھی نقصان کااندیشہ ہے اور دوسرے شہریوں کو بھی دھکا دے دیں تو وہ بھی گیا۔
خواہ خاتون ہو یا بچہ ہو یا بوڑھا ان کی زد میں کوئی بھی آ سکتا ہے۔ متعلقہ حکام کو چاہئے کہ ان کی روک تھام کیلئے کوئی عملی کام کریں۔ خاص طور عورتوں کے بازاروں میں تو ان کو کسی خاتون کے بغیر ہرگز بھی داخلہ نہ دیا جائے۔مینا بازار سے تو صدر تاجران کی شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ ان کو اور ان کے کاروبار کو تحفظ دینے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔یہ بازار شہر میں ہوں یا شہر سے باہر ہوں ہر جا یہی عالم ہے۔ لیکن یہ اس سال کی تو بات نہیں۔ ہر سال ایسا ہوتا ہے۔حکام کو چاہئے کہ اس حوالے سے ٹھوس حکمتِ عملی وضع کریں او راس قسم کے اوباش نوجوانوں کا داخلہ بندکردیں۔ جس بازار میں جائیں یہی حال ہے۔رکشو ں کی بھرمار ہے۔رکشوں اور گاڑیوں وغیرہ کیلئے ایک بارڈر لائن متعین کی جائے کہ اس حد سے ان کو آگے نہ آنے دیا جائے۔ مگر دوسری طرف اتنی پولیس نفری بھی اب کہا ں سے آئے کہ جا بے بجا پولیس کھڑی ہو۔پھر یہ کسی کی نصیحت مانتے بھی کہاں ہیں۔
بازاروں کے صدر حضرات بہت پریشان ہیں کہ اتنے گاہک نہیں ہیں جتنے تماش بین نوجوان بازاروں کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لیڈیز کے ان بازاروں میں اوران بازاروں کے ساتھ جڑے ہوئے دوسرے بازارو ں میں سیکورٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔آورہ گردانِ شہر کا ان بازاروں میں آنا جانا عام دنوں میں بھی معمول بن گیا ہے تو پھر چاند رات کو تو اور رش ہوگا اور یہ ہلڑ بازی اپنے عروج پر ہوگی۔اس کا سدِ باب کرنا بہت ضروری ہے۔یہ بازار خواتین کی خریداری کے بڑے بازار ہیں۔پھر ان بازاروں میں لیڈیز پولیس کی تعیناتی بھی ضروری ہے۔یہ معاملات ہر سال پیش آتے ہیں۔ مگر حکام اس قسم کی صورتِ حال میں کوئی خاص قسم کی حکمت عملی تاحال نہیں بنا سکے۔پھر ایسا کرنا بھی تو ان کیلئے ناممکن ہے۔کیونکہ ہم شہری جب خود باشعور نہیں ہوں گے۔اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کریں گے یہ کایاپلٹنے والی نہیں ہے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی اور یہ نیا کنارے نہیں لگے گی۔