حرمین شریفین کی زیارت ہر مسلم مرد وعورت کی آرزو ہوتی ہے۔ ہماری بھی تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی رہی۔تاجدارِحرم والی مشہور قوالی جب بھی سنتا تو اکثر آنکھیں بھر آتیں اور دل سے بلاوے کی دعا نکلتی۔ چند ایک نعت ہائے مبارک کے سننے پر بھی یہی حالت ہوتی رہتی۔ہم اپنی رفیق حیات کے ساتھ عمرہ ادا کرنے روانہ ہوگئے۔ رات بارہ بجے ہم مکہ معظمہ پہنچے تو ہوٹل میں سامان رکھ کر فوراً حرم شریف روانہ ہوگئے۔راستے میں اکثر لوگ دو سفید چادروں میں ملبوس حرم شریف کی طرف بڑی تعداد میں جاتے یا وہاں سے اپنے ہوٹلوں کو واپس آتے نظر آرہے تھے جن میں ہر عمر اور رنگ و نسل کے مرد و عورت شامل تھے۔خانہ کعبہ میں داخل ہونے کے کئی دروازے ہیں اور ہم غالبا ًباب الفہد سے پہلی بار داخل ہوئے تھے۔حرم شریف کے صحن تک پہنچنے کیلئے تھوڑا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس کے دونوں اطراف میں خوبصورت حدبندیوں میں نرم نازک قالینوں پر زائرین نماز پڑھتے، قرآن شریف کی تلاوت کرتے، اذکار کرتے یا آرام کرتے نظر آرہے تھے۔پہلے سے سنا ہوا تھا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نگاہ پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں زائرین آجارہے تھے۔ کہاں ہم اور کہاں اللہ تعالی کا مقدس گھر۔ ہمیں یہ سب کچھ خواب سا نظر آرہا تھا۔ اس دروان اچانک ہم خانہ کعبہ کے سامنے پہنچ گئے۔ہم خانہ کعبہ پر نظریں جمائے اپنے لیے، دوستوں اور رشتہ داروں اور سب امت مسلمہ کیلئے دعائیں مانگتے رہے اور تقریبا آدھے گھنٹے بعد سیڑھیوں کے ذریعے نیچے صحنِ حرم یعنی مطاف میں جا اترے۔صحن حرم میں جاکر ہم نے مقام ابراہیم کے داہنے طرف سبز بتیوں کے پاس سے پہلا طواف شروع کیا۔ ایک طواف مکمل کرنے کے بعد سبز بتیوں کے پاس خانہ کعبہ کو استیلام کیلئے ہاتھ بلند کیا تو خود پر قابو نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔پھر ہر طواف میں استیلام کے وقت یہی ہوتا رہا۔ جیسے ہی استیلام کیلئے خانہ کعبہ کی طرف ہاتھ اٹھاتا، آنکھیں بھر آتیں۔سات چکروں کے بعد طواف مکمل ہوا تو اب حطیم میں نوافل پڑھنے کی باری تھی مگر وہاں جگہ کم اور زائرین کی تعداد زیادہ تھی اور دھکم پیل جاری تھی۔کئی روز ہم مکہ معظمہ میں مقیم رہے۔ اس دوران ہمارے گروپ کے ساتھی مختلف تاریخی مقامات کی زیارت کیلئے جاتے رہے' ہم صبح کی نماز کیلئے تہجد کے وقت خانہ کعبہ جاتے اور فجر پڑھ کر واپس ہوٹل آجاتے۔ پھر ظہر پڑھنے جاتے اور واپس آکر آرام کرتے۔ اکثر عصر سے ایک دو گھنٹے پہلے جاتے تو پھر عشا تک وہاں عبادت یا طواف کرتے اور عشا کے بعد واپس آجاتے۔اس دوران طواف میں کئی بار حجر اسود کو بوسہ دینے کی خواہش دل میں انگڑائیاں لیتی رہی مگر اس کیلئے دھکم پیل کیلئے دل آمادہ نہ تھا جبکہ موقع بھی نہیں بن سکا۔پھر ایک روز طواف کے دوران حجر اسود کے سامنے ایک ریلا سا آیا اور دیکھا تو میں حجر اسود کے قریب جا کھڑا تھا۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا نہیں جانتا۔ ہہر حال حجر اسود کو چومنا، ہاتھ لگانا ممکن ہوا مگر اس دوران ایک دوسرا ریلا آیا اور دیکھا تو میں حجر اسود سے دور مطاف میں جا کھڑا تھا۔یہاں سات آٹھ دن گزار کر مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ پانچ گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر پہنچ گئے۔مدینہ منورہ کی فضا بڑی مسحور کن اور موسم بہت خوشگوار تھا۔ ہوٹل میں سامان رکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پرنور اور مسجد مبارکہ کی زیارت کیلئے نکل پڑے۔دور سے سبز گنبد اور مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے میناروں پر نظر پڑی تو اللہ تعالی کے اس احسان عظیم پر دل شکر کے احساسات سے بھر گیا۔روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور ریاض الجنت میں نوافل پڑھنے کو مردوں اور عورتوں کیلئے منظم اور باسہولت بنانے کی خاطر سعودی حکومت نے اچھا انتظام کیا ہوا ہے۔ زائرین کے آگے بڑھنے کیلئے شامیانوں سے کئی جگہیں بنائی گئی ہیں اور زائرین باری باری اور آہستہ آہستہ ایک سے دوسری میں جاتے اور آگے بڑھتے ہیں۔ اس کے بعد روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر حاضری کا موقع آیا۔ بخدا سامنے ہوئے تو پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے حتی کہ سعودی سپاہی نے 'حاجی' کہہ کر اور کندھے پر ہاتھ رکھ کر باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔اس کے بعد پھر ریاض الجنتہ میں آرام سے نوافل پڑھنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر حاضری اور سلام کے کئی مواقع ملے۔سنا تھا کہ مدینہ منورہ کے لوگ نرم خو اور پیار کرنے والے ہیں اور وہاں دل نرم ہو جاتا ہے اور یہ باتیں صحیح ثابت ہوئیں۔مسجد نبوی میں کئی شیخ حضرات سے شناسائی پیدا ہوئی جو وہاں بچوں کو پڑھاتے تھے۔ ایک نے تحفے بھی دئیے۔ ویاں چند ایک سرکاری افسروں سے بھی کئی روز بات چیت ہوئی جو تھوڑی بہت انگریزی بول لیتے تھے۔مسجد نبوی کے اوپر ایک عالی شان لائبریری موجود ہے اور میں ظہر سے پہلے اور بعد اکثر وہاں بیٹھا ہجرت نبوی اورسیرت مبارکہ پر کتابیں پڑھتا رہا۔یقین کریں وہاں ان کتابوں نے جو لطف دیا اور قلب و روح پر جیسا اثر ڈالا وہ نہ اس سے پہلے ان جیسی کتابوں کے پڑھنے سے دیکھنے میں آیا اور نہ ان کے بعد۔مدینہ منورہ میں جنت البقیع کی کئی دفعہ زیارت کی اور مقام احد، مسجد قبلتین اور مسجد قبا سمیت دیگر چند ایک قریبی مقامات بھی گئے۔شیرگڑھ مردان سے تعلق رکھنے والے مدینہ منورہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم شکیل احمد نے بڑے خوبصورت انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت، غزوات اور قیام مدینہ بارے بہترین معلومات اور واقعات سے مزین بیانات سنائے۔سات روز بعد مکہ معظمہ واپسی ہوئی۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ لوگوں کا رش کم ہوگیا ہے۔ اکثر زائرین نے ماسک لگائے ہوئے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ کورونا وائرس نامی وبا نے دنیا بھر میں حملہ کردیا ہے۔اور اس کی وجہ سے بیرون ملک سے نئے زائرین پر پابندی لگ چکی ہے۔کم تعداد کا مطلب یہ تھا کہ اب طواف کرنا، حجر اسود کو چومنا اور حطیم کے اندر یا مقام ابراہیم کے قریب نوافل پڑھنا مشکل نہیں رہا تھا۔تین مارچ کو خانہ کعبہ میں نماز فجر کی آخری باجماعت نماز میں امام صاحب کی تلاوت نے دل و دماغ پر بہت زیادہ اثر ڈالا اور آنکھیں چھلک پڑیں تھیں۔میرا خیال ہے وہاں جانا وسائل سے زیادہ دل کی تڑپ اور لگن پر منحصر ہے۔اللہ تعالی ہم سب سے راضی ہو اور ہمیں اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح پیروی اور کماحقہ احترام اور محبت کی توفیق دے۔