بری اور اچھی خبر

یہ رپورٹ یقینا تشویشناک  ہے کہ وطن عزیز  کے جوانوں کی 33 فیصد آبادی شوگر کی بیماری میں مبتلا ہے اور ماہرین اس کی بڑی وجہ میٹھی اشیا ء خوردنی بشمول مشروبات کے کثرت سے استعمال کو قرار دے رہے ہیں۔ شوگر اور امراض قلب کا آ پس میں بہن بھائی کا رشتہ ہے جسے شوگرہو گی تو اسے ہارٹ اٹیک کا شدید خطرہ رہے گا۔ ماضی میں اس فرد کو نجی سیکٹر میں سکول کھولنے کی اجازت دی جاتی تھی اگر وہ سکول کے احاطے کے اندر مختلف گیمز کے واسطے کھیل کے میدانوں کا بندوبست کرتا تاکہ سکول کے ہر طالب علم کو جسمانی ورزش کا موقعہ ملتا ایک لمبے عرصے سے اب جسمانی ورزش کی جگہ لیپ ٹاپز اور موبائل سیٹو ں نے لے لی ہے جس کے ہاتھ میں دیکھو  اس نے مو بائل پکڑا ہوا ہے۔ بچوں نے وقت سے پہلے نظر کے چشمے لگانا شروع کر دیئے ہیں کیونکہ چھوٹی سکرین کا کثرت سے استعمال نظر کو برباد کر رہا ہے۔ اکثر والدین کا اس طرف دھیان ہی نہیں ہے۔
 ماضی میں انٹرٹینمنٹ کے ذرائع سینما ہاؤسز ہوتے تھے جن میں بڑی بڑی سکرین ہوتی تھی جب ٹیلی ویژن کا ظہور ھوا تو کئی ڈاکٹروں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس کو بارہ گز سے دور رکھ کر اگر نہ دیکھا گیا تو یہ قوت بصارت پر برااثر ڈال سکتا ہے، یہ بات ہو رہی تھی ٹی وی کی جس کی سکرین موبائل سے بہت بڑی ہے اور اسے کافی فاصلے سے دیکھا جا سکتا ہے اور اب تو موبائل کی سکرین اتنی چھوٹی ہو گئی ہے کہ خدا کی پناہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب سے جسمانی ورزش عنقا ہوئی ہے۔ حضرت انسان شوگر امراض قلب اور دیگر کئی جسمانی امراض کا شدت سے  شکار ہو رہا ہے جس معاشرے میں ادویات کی دکانیں بڑھ  جائیں تو وہ اس معاشرے کی گرتی ہوئی  جسمانی حالت کی چغلی کھاتی ہیں۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا طرز زندگی ماضی کے مقابلے میں بہت بد ل گیا ہے۔ پہلے لوگ پیدل بھی زیادہ چلتے تھے اور ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنے کا شوق رکھتے تھے، باغات اور پارک بھی زیادہ تھے۔ اب کسی کے پاس وقت نہیں کہ وہ دوسروں کا تو کیا اپنا بھی خیال رکھ سکتے۔ پیدل چلنا تو لوگوں نے جیسے چھوڑ ہی دیا ہے۔
 سامنے کی جگہ تک جانے کیلئے بھی موٹر سائیکل پر سوار ہوجاتے ہیں۔پارک میں جاگنگ کیلئے جانے والے  سو میں سے ایک بھی نکلے تو بہت ہوں گے۔لوگ سو کر اٹھتے ہی دفاتر کا رُخ کرتے ہیں اور واپس آکر آرام کرتے ہیں۔ چلنے پھرنے سے گریز بھی ڈھیر ساری بیماریوں کا باعث ہے۔  دوسری طرف بل گیٹس کا یہ بیان پریشان کن ہے کہ کورونا ختم نہیں ہوا اس کی تبدیل شدہ شکل زیادہ مہلک ہو سکتی ہے ان کے مطابق دنیا نے اس وبا کا بد ترین مرحلہ ابھی نہیں دیکھا۔ماہرین کے مطابق اس  انفیکشن سے بچنے کیلئے طویل مدتی اثرات رکھنے والی ویکسین کی فوری ضرورت ہے۔ بین الاقوامی سطح  خصوصاً ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو اضافی سرمایہ کاری کی بہت ضرورت ہے تاکہ اس وائرس سے کامیابی سے نمٹا جا سکے۔  وطن عزیز  میں خدا  کے خصوصی فضل و کرم سے اس وبا پر کافی حد تک کنٹرول پایا جا چکا ہے پر اس ضمن میں جو تازہ ترین پیش گوئی کی گئی ہے اس کے پیش نظر حکومتی اور عوامی سطح  پر اس ضمن میں اسی قسم کے حفاظتی اقدامات اٹھانے ہوں گے کہ جو گزشتہ تین سالوں میں اٹھائے گئے  ہیں تاکہ اس وبا سے موثر انداز میں نبٹا جا سکے۔