پاکستان کو معاشی سہارے کی نہیں بلکہ خودکفالت پر مبنی پائیدار سہاروں (وسائل) کی ضرورت ہے‘ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی معیشت کو سہارا دینے کیلئے جن دوست ممالک سے تعاون کی درخواست کرنے کا فیصلہ کیا ان میں سب سے پہلا نام سعودی عرب کا سامنے آیا ہے اور ماضی کے ہر حکمران کی طرح اُنہوں نے بھی سعودی معاشی تعاون پر پاکستان کی ڈانواں ڈول معیشت کو کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ ضرورت اِس معیشت کے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور قدم قدم چلنے (شرح نمو) کی ہے جس کیلئے چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے‘ گودار بندرگاہ‘ ریکوڈک اور تھرکول جیسے قدرتی وسائل موجود ہیں جبکہ دنیا میں قدرتی و نیم قدرتی پتھروں کے ذخائر رکھنے والا والا 5واں بڑا ملک ہے لیکن جس طرح پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس (کاٹن) سے دوسرے ممالک فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
بالکل اِسی طرح پاکستان کے چاول‘ نمک اور دیگر اجناس کے علاؤہ قیمتی پتھروں کی تراش خراش بھی زیادہ فائدہ دیگر ممالک اُٹھا رہے ہیں پاکستان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے سعودی عرب کے ولی عہد کی دعوت پر سعودی عرب کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا۔اس دورے کے دوران وفاقی وزرأ بلاول بھٹو زرداری‘ مفتاح اسماعیل‘ نوابزادہ شاہ زین بگٹی‘ مریم اورنگزیب‘ خواجہ آصف‘ چوہدری سالک‘ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی‘ محسن داوڑ اور مولانا طاہر اشرفی بھی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔ وزارت ِعظمیٰ سنبھالنے کے بعد یہ شہباز شریف کا پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ دورے کے دوسرے روز شہباز شریف کی سعودی ولی سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات‘ معیشت‘ سرمایہ کاری‘ تجارت کو مضبوط بنانے اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہئ خیال کیا گیا۔
اس دورے کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں بتایا گیا کہ سعودی عرب نے سٹیٹ بینک میں موجود تین ارب ڈالرکی واپسی کی مدت میں توسیع کردی ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاک سعودی سپریم کوآرڈی نیشن کونسل کے تحت مختلف امور پر دوطرفہ تعلقات اور تجارت کے فروغ پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں ملکوں کا نجی شعبے میں بھی تعاون پر اتفاق ہوا ہے۔ وزیراعظم نے پاکستانیوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر بھی زور دیا۔ شہباز شریف کے مذکورہ دورے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس دوران مسئلہ کشمیر پر نہ صرف سعودی حکام سے بات کی گئی بلکہ وزیراعظم کی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ سے بھی ملاقات ہوئی۔ سعودی عرب کی طرف سے کہا گیا کہ وہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ مسئلہ جموں وکشمیرسمیت تمام تنازعات کا حل تلاش کرنے میں دلچسپی کی نشان دہی سے متعلق بیانات کا خیرمقدم کرتا ہے۔
دونوں اطراف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کی اہمیت پر زور دیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تمام مسائل خاص طور پر تنازعہ جموں وکشمیر کو حل کیا جاسکے جس سے خطے میں امن و سلامتی یقینی ہو۔ مکہ مکرمہ میں وزیراعظم کی او آئی سی کے سیکرٹری جنرل سے ہونے والی ملاقات کے دوران وزیراعظم نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سنگ بنیاد کے طور پر امت مسلمہ کے مفادات کو فروغ دینے کیلئے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نے کشمیر کاز کیلئے او آئی سی کی مسلسل اور غیر مشروط حمایت پر سیکرٹری جنرل کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے تنظیم پر زور دیا کہ او آئی سی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق جموں و کشمیر تنازعہ کے پرامن اور دیرپا حل کیلئے سفارتی کوششوں کی رہنمائی کرے۔ پاکستانی معیشت اس وقت جس بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے اس کو سنبھالا دینے کیلئے ہمیں دوست ممالک سے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے پاکستان کے مذاکرات تو جاری ہیں لیکن اس کی کڑی شرائط کی وجہ سے عام آدمی کے مسائل میں مزید اضافہ ہونے کا بھی امکان ہے۔ ایسی صورت میں اگر دوست ممالک پاکستان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو عام آدمی پر بوجھ ڈالے بغیر معیشت کو کسی حد تک مستحکم کیا جاسکتا ہے۔