بارش کی ساتویں شام

یہ رات بارہ بجے کے بعد کا وقت تھا۔منگل اور بدھ کی درمیانی رات تھی۔ہم نے سوچا کہ سردیاں لوٹ آئی ہیں اور وہ بھی اچانک سے واپس مڑی ہیں۔ہم سوئے اتفاق رنگ روڈ پر اکیلے رواں دواں تھے۔بارش نے جیسے اچانک حملہ کر دیا تھا۔ موسلا دھار تھی۔پھر آسمانی بجلی کی چمک اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ نے ماحول کو بہت خوبصورت بنا دیا تھا۔ پانچ روز سے ابر روز آتا تھا اور کبھی تو ننھے منے قطرے برس جاتے۔ شام پڑتے ہی بادلوں کی دھمکار اور بجلی کے چمکاروں نے گرمی کے مارے آدم زادوں کے دل من ٹھار کر دئیے تھے۔ پھر ہوا اور جھکڑ آندھی یوں کہ ابھی خوفناک بارش شہر کے سر پر اپنا پنجہ گاڑ دے۔ مگر ایسا ہوتے ہوتے ناکام ہو جاتا۔ موسم بھی کتنی جلدی بدلتے ہیں۔ پھر اچانک موسم اس طرح خوفناک ہوا کہ خیال آیا پہلے سے کچھ پلاننگ کر لیتے۔مگر انسان کی حیثیت ہی کیا ہے جو اتنا دماغ رکھتا ہو کہ آنے والے حادثات اور غیر مؤثر حالات کا پہلے سے علم ہو۔ ہفتہ بھر ہونے آیا تھا بادلوں کی یہی آنکھ مچولی جاری تھی۔ 
پھر ایک دن پہلے بھی رات کو اچانک پندرہ بیس منٹ کیلئے بادل چھلک پڑے تھے۔اتنے کہ پانی کے قطرے جسم پر خراشیں ڈالتے ہوئے محسو س ہوئے۔ اس وقت ہم بائیک کو ایک طرف کھڑی کر کے ایک دکان کے چھپر تلے پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔مگر ہم جس رات کا ذکر کرنے چلے ہیں اس کے بارے میں وہی جان سکتے ہیں جو اس رات سڑک پرآوارہ گھوم رہے تھے یا کام سے کہیں رواں دواں تھے۔ اسرار الحق مجاز کی وہ نظم ہونٹوں پر کھیلنے لگی”شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں۔ جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں“۔اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں“۔ خوفناک کڑکڑاورگڑگڑاہٹ نے اب تو ماحول کو بجائے خوبصورتی عطا کرنے کے خوفناک بنا دیا تھا۔بارش سے جسم کے شرابور ہوکر کپکپی اورآسمانی بجلی کے خوفناک لشکاروں کے ساتھ کانوں کے پردوں کو پھاڑ ڈالنے والی خوفناک آوازوں نے یوں خوف میں مبتلا کر دیا تھاکہ ہم تو نہ آگے جا سکنے کے قابل تھے اور نہ واپس جہاں سے آئے وہاں جا سکتے تھے۔ 
آج تو بچت کا امکان نہیں تھا۔ کسی طرح موبائل نکال کر گھر پہنچنے سے پہلے ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ کہ ہماری فلائٹ آ رہی ہے۔کچھ ہی روز قبل گرمی بھی تو اچانک زیادہ ہوگئی تھی اور لگتا تھا کہ ہم نے موسمِ گرما کے زون میں قدم رکھ دیا ہے۔ مگر اس بارش نے تو ہمارے یقین کومتزلزل کر دیا تھا۔کنوؤں اور باؤلیوں میں بھی پانی کم ہو گیا تھا۔مگر اب کے زناٹے دار بارش نے زیرِ زمین پانی کی سطح کو بڑھا دیا تھا۔اپنے کمرے کا پنکھا بند کرنا پڑا کوٹی کھینچ تان کر جرابیں چڑھا کر سر پر تولیہ لیا اور پاؤں سمیٹے چارپائی کے اوپر فراغت کے تخت پر شاہِ شطرنج بن کر بیٹھ گئے۔آنکھوں پر سر دردی اور زکام کی کیفیت میں بوجھ محسوس ہونے لگا۔ اگر ذرا پہلے باخبر ہو جاتے۔مگر کیا خبر کہ گھر نکلے ہی کچھ دور چلتے ہی رات کے اس اندھیرے میں یہ دن دیکھنا پڑے گا۔ سڑک پر دکانیں او ربازار سنسان تھے۔مگر ایک خجل خواری جو ہمیں حاصل تھی اس نے ایک نیا تجربہ دکھلایا تھا۔ راہگیر او رموٹر بائیک چلانے والے سب کچھ بھول کر چھوڑ چھاڑ کر کھلی ہوئی دکانوں کے اندرسایہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔اس رات گئے پچیسویں گھنٹے کے بیس منٹ میں صورتِ حال کی نزاکت کاکچھ انھیں کو معلوم ہوگا جو اس وقت گھر سے باہر شہرکے بیرون کسی مرکزی شاہراہ پر بائیک پر سوار ہو کر روانہ تھے۔شہر کی بلند وبالا عمارات کے سائے تلے کا ماحول اس نظارے سے محروم تھا۔