معاشی مشکلات اور آسانیاں 

 خوش آئند ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف عام آدمی (ہم عوام) کی زندگیوں میں معاشی آسانیاں لائیں گے۔ پاکستان بطور ریاست اور بطور معاشرہ جس حال (انتہا) کو پہنچ چکا ہے ہمیں واقعی ایک ایسے سربراہئ حکومت کی ضرورت ہے جسے عوامی تکلیفوں اور پریشانیوں کا احساس ہو اور وہ ان کے حل کے لئے مخلص ہو کر کچھ کرنا بھی چاہے۔ شہباز شریف کے پاس بطور وزیراعظم اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے وقت کم اور مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔ ملک کی خراب معاشی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لئے شہباز شریف بھاگ دوڑ تو بہت زیادہ کررہے ہیں لیکن ان مساعی کے نتائج سے اندازہ ہوگا کہ عوام کا نظام پر اعتماد بحال ہونے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کے علاوہ عوام کی بنیادی ضروریات میں علاج معالجے کی سہولیات بھی شامل ہیں۔ شہباز شریف نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کے طور پر کام کرتے ہوئے اس امر کو یقینی بنایا تھا کہ صوبے بھر کے ہسپتالوں میں عوام کو ادویہ مفت فراہم کی جائیں۔ تحریک انصاف نے پاکستان صحت کارڈ کے تصور کو انصاف صحت کارڈ کی شکل میں زیادہ بہتر انداز سے متعارف کروایا اور اس نئے منصوبے سے یقینا عوام کو کچھ فائدہ بھی پہنچا  اب شہباز شریف نے پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں ادویہ مفت فراہم کرنے کا حکم دیا ہے جس سے عوام کی پریشانیوں میں یقینی طور پر کمی واقع ہوگی۔ وزیراعظم نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج معالجے کے لئے کوئی رقم نہ لی جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پورے پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں فری ادویات کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ یہ اقدامات عوام کے مسائل میں کمی کا باعث بنیں گے۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) شہباز شریف کے سابقہ دورِ حکومت کا ایک ایسا منصوبہ تھا جس سے غریب اور نادار مریضوں کو بین الاقوامی معیار کی علاج معالجے کی سہولیات مفت میسر آئیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد شہباز شریف نے اس منصوبے پر دوبارہ توجہ دینا شروع کی ہے۔ عید سے ایک روز پہلے انہوں نے ”پی کے ایل آئی“ کے اجلاس کی صدارت کی جس میں اُنہیں انسٹی ٹیوٹ کے انتظامی امور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ گزشتہ سال میں دو سو نوے کڈنی ٹرانسپلانٹ اور ایک سو نوے لیور ٹرانسپلانٹ کئے گئے جن میں سے صرف سترہ فیصد کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی گئی۔ وزیر اعظم نے انسٹی ٹیوٹ میں سہولیات کو عالمی معیار کے مطابق بنانے اور کم از کم پچاس فیصد غریب مریضوں کو مفت علاج فراہم کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ”پی کے ایل آئی“ کو ٹرسٹ بنایا جائے اور اسے مالی طور پر خود مختار بنانے کے لئے چیف سیکرٹری پنجاب کو ہدایت کی کہ وہ مکمل حکمت عملی مرتب کرکے جلد پیش کریں۔ عوامی مسائل کے حل کے ضمن میں ہمارے ہاں ایک بڑا اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک حکومت اگر عوامی فلاح و بہبود کے لئے کوئی منصوبہ شروع کرتی ہے تو اس کے بعد عنانِ اقتدار تھامنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس منصوبے کو آگے نہ بڑھنے دیں تاکہ سابقہ حکومت کے کھاتے میں کوئی اچھی بات نہ لکھی جائے۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ہمیں اس روش کو ترک کرنا ہوگا۔ کسی بھی حکومت نے اگر عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لئے کسی منصوبے کا آغاز کیا ہے تو وہ منصوبہ پاکستان کے لوگوں کی امانت ہے جس میں کسی بھی قسم کی خیانت نہیں ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں تمام جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی فلاح کے منصوبے حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے متاثر نہ ہوں اور ان سے عوام کو ملنے والے ثمرات ایک تسلسل کے ساتھ لوگوں تک پہنچتے رہیں۔ جمہوری معاشروں میں اقتدار کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں‘ اگر حکومتوں کے رویوں سے تنگ آ کر عوام نے ان پر اعتماد سے ہاتھ کھینچ لیا تو یہ کسی ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا۔