اُف یہ موبائل

 

موبائل نے باہر کی اقوام کی ترقی یافتہ زندگی پر اتنا اثر نہیں ڈالا ہوگا۔ جتنا اس کے ہاتھوں ہمیں آسانیاں حاصل ہوگئی ہیں۔معلوم نہیں یہ بیرونی سازش ہے یا عالمی ترقی ہے۔جیسا کہ ہمارا ٹی وی ہمارے معاشرے کی تصویر کشی کرتا ہے۔ویسے ہی باہر کی خبروں کا چینل ہو یا کوئی ٹیلی تھیٹر نما ڈرامہ ہو۔ ہم نے بہت کم دیکھا کہ وہاں کے معاشرے میں موبائل اتنا عام اور ضروری ہو۔مگر یہاں شاید ہمارے لئے ہمارے مزاج کے مطابق یہ کوئی عجوبہ ئ روزگار چیز ہے۔ہمارے ہاں بچے بچے کے ہاتھ میں یہ ممنوعہ بور کی بہت بڑی چیز تھما دی گئی ہے۔ہر کس و ناکس اپنی سی آسانی کے مزے لے رہا ہے۔ سمندروں کے فاصلوں پر پھیلے ہوئے لوگ جن کو زندگی میں شاید ایک بار بھی ملنا مشکل ہو ہمہ وقت موبائل کی سکرین پر بول چال کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ہزار کوس سے بہ زبانِ غیر اپنوں کے ساتھ بات چیت کے مزے لیا کرو۔ برقی مراسلے مکالمے بن گئے ہیں۔ یوں ہے کہ جیسے پاس پاس بیٹھے ہوں۔خط و کتابت کا زمانہ تو گیا خاک ہوا۔ اب تو نہ کسی ڈاکیہ کی ضرورت ہے اور نہ محکمہ ڈاک کی ضرورت ہی باقی رہی ہے۔ماضی میں ہفتہ بھر میں تو ہاتھ سے لکھا خط پہنچتا تھا۔اب تو قلم اور کاغذ کی ضرورت ہے اور نہ ڈاکیہ کو پریشانی ہے۔سب کچھ ہر طریقے سے ہر وقت مہیا ہے اور خوب دستیاب ہے۔جیسے مفت ہو پیکیج کر وا کے گھنٹوں آمنے سامنے کی حرکت کرتی تصویری ملاقات ہے۔جیسے سامنے والا چہرہ ابھی سکرین سے نکل کر پاس آ جائے گا۔ موبائل نے زندگی کو بہت آسان بنا دیا ہے۔اتنا آسان کہ آدمی اس کو گود لے کر بیٹھا رہے۔کہیں آنے جانے کے قابل نہ رہے۔جہاں بیٹھا ہے وہیں بیٹھا رہے۔جیسے وہ شعر کہ ”حضرت ِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے۔ اور ہوں گے تیری محفل سے ابھرنے والے“۔اس بیٹھے رہ جانے کا انجام یہ ہے کہ موبائل کے ہاتھوں بندہ نہ چلتا پھرتا ہے او رنہ ہی اس کی ورزش ہوپاتی ہے۔سو بیٹھا رہا تو بیٹھا رہ جا ئے گا۔ پھر بقول فیض ”مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں۔ جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے“۔ اس بیٹھ کر زندگی گذارنے سے بندہ بیماریوں کا مرکز بن جاتا ہے۔پھر یوں کہ اگر وہاں سے اٹھتا بھی ہے تو کسی گھمبیر بیماری کے کارن کہ جیسے میر تقی میر کا شعر ہو ”یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم۔جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے“سیدھا اپنے آبائی قبرستان میں پہنچتا ہے۔ موبائل نے اتنا معاملہ آسان کر دیا ہے کہ نہ صرف جینا آسان بلکہ مرنا بھی آسان ہو گیاہے۔اب تو لوگ بھی تیزی سے مر نے لگے ہیں۔ایک کے بعد دوسرا یکے بعد دیگرے۔بیدم وارثی نے کیا کہا تھا”ساقی تیرے آتے ہی یہ جوش ہے مستی ہے۔ شیشے پہ گرا شیشہ پیمانے پہ پیمانہ“۔کیونکہ بیٹھے رہ جانے سے بندہ لیٹ جاتا ہے۔پھر پٹی پہ پڑجاتے ہیں اور پھر اٹھتے نہیں اٹھائے جاتے ہیں۔لائے نہیں لے جائے جاتے ہیں۔پہلے کہیں کوئی مہینوں بعد کہیں دور پار سے اطلاع آجاتی تھی کہ فلاں علاقے فلاں گاؤں میں کوئی عزیز انتقال کر گیا ہے۔اطلاع بھی تین روز گذر جانے کے بعد موصول ہوتی۔ پھر وہ بھی یہ اطلاعات کا کام کسی پروفیشنل آدمی کے حوالے کیا جاتاتھا۔وہ اپنی رقم لے کر تانگو ں میں سفر کر کے شہرکے سولہ دروازوں میں سے کسی ایک کے اندر داخل ہوتا او رمزید پیدل گھوم کر شہر کے گھروں کے دروازے بجاتا او رانتقالِ پُرملال کی اطلاع یابی کرتا۔اسی طرح شہر کی کسی فوتگی بارے میں گاؤں والوں کو بھی تاخیر سے خبر پہنچتی۔پھر فون کا زمانہ آیاتو تار والے فون کے ذریعے گاؤں کے کسی ایک گھرمیں کہلوا دیا جاتا اور میت میں شریک ہوسکنے والے جنازہ میں حاضری لگا لیتے۔مگر اب تو موبائل پر بٹن دبانے کا اشو بھی نہیں۔صرف انگلی کو ٹچ کرو اور جہاں چاہو دنیا کے کسی کونے میں بھی کوئی نیوز ہوپھیلا دو۔بلکہ جو نہیں پہنچ سکتے وہ اپنے عزیزوں کے جنازے میں براہِ راست کوریج کے ذریعے بذریعہ موبائل شریک ہوجاتے ہیں۔زندگی آسان ہو مگر اتنی بھی نہ ہو کہ آیا دن کسی نہ کسی کے مرنے کی خبر ہے۔بلکہ فون پر کہا جاتاہے کہ ایمبولینس سے گھر کو واپسی ہے۔جس کے نتیجے میں ڈیڈ باڈی کے ہسپتال سے گھر پہنچنے سے پہلے عزیز رشہ دار دور دراز سے آکر میت والے گھر کے مین گیٹ پر میت وصول کرنے جو ق در جوق پہنچ جاتے ہیں۔توبہ اب زمانہ اتنابھی ترقی کر جائے گا یہ ستم بھی دیکھنا تھا۔موبائل نے تو دنیابھر کو جیسے فتح کر دیا ہے بلکہ یوں کہئے کہ غیروں نے ہمارے معاشرے کو قابو میں کرلیا ہے۔انھو ں نے سات سمندر پار سے الہ دین کا جو چراغ بھیجا ہے اس نے ہمارے ہی کتنے راز دیس پرائے بیٹھے ہوئے جاسوسی کرنے والے غیروں کو بڑی سخاوت مہیا کر دیئے ہیں۔ اس میں مجرمو ں کا نقصان تو ہے مگر ا س رگڑے میں اب شرفاء لوگ بھی آ گئے ہیں۔ موبائل استعمال کرنے والا اس وقت کہا ں ہے کس جگہ کس شہر کس موڑ پر ہے سب کچھ معلوم ہو جاتاہے۔