سفرِ زیارت

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں اس خطے کے ایک عظیم روحانی پیشوا اور کاکاخیل میاں گان کے جد امجد حضرت شیخ سید کستیر گل المعروف بہ حضرت شیخ رحمکار کاکا صاحبؒ کا مزار اقدس واقع ہے‘ یہ مرجع خلائق ہے اور لوگ بڑی تعداد میں ان کے مقبرے کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔چھتیس برس قبل پہلی بار یہاں حاضری دی تھی جب ہمارے ایک کزن کی شادی ہوئی تھی اور روایت کے مطابق یہاں ہم دلہن اور دلہے کے ساتھ تبرک کیلئے آئے تھے۔تب سے خواہش اور ارادہ تھا کہ خانوادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس چشم و چراغ کے مزار اقدس پر دوبارہ حاضری دوں اور ان کے لئے اور ان کی قبر مبارک کے اردگرد مدفون ان کے اہل و عیال، مریدوں اور دیگر صاحبان قبور پر فاتحہ پڑھوں۔نوشہرہ میں پچھلے آٹھ سال سے ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھا۔ بوجوہ یہاں آنے میں تاخیر ہوگئی مگر آج یہ خواہش پوری ہوگئی۔ جب ہم اس وقت آئے تھے تو کاکا صاحب مرحوم کے مزار اقدس کو اوپر جانے والے راستے کے دونوں جانب دکانیں تھیں اور اوپر چھجا لگایا گیا تھا۔ یاد نہیں پڑرہا کہ بلب یا لالٹین تھے جو روشنی دے رہے تھے۔  چھجے، تازہ چھڑکاؤ اور ہلکی ہوا کے باعث موسم نہایت خوشگوار تھا۔عام دنوں میں اکثرخصوصاً عیدین اور عرس مبارک کے دنوں میں لوگوں کا جم غفیر یہاں امڈا آتا تھا۔ اب بھی زائرین بڑی تعداد میں آتے ہیں۔28 اکتوبر 2012 ء کو حضرت کاکا صاحب کے دربار میں ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں 4 افراد جاں بحق جبکہ 21 زخمی ہوگئے تھے۔ دہشت گردوں نے دھماکہ خیز مواد ان کے مزار کے دروازے پر رکھا ہوا تھا۔حضرت شیخ رحم کار کاکا صاحب مرحوم یکم رمضان 981 ہجری مطابق 25 دسمبر 1573ء بروز جمعہ صبح صادق کے قریب کنڑہ خیل نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔آپ کی جائے پیدائش کو دیکھ کر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ آپ کا خاندان مالی طور پر آسودہ حال تھا اور کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنی جیب مبارک سے اپنے ہاں پڑھنے والے سب طلباء کی رہائش اور خورد و نوش کا انتظام کر رکھا تھا۔آپ کے والد ماجد کا نام شیخ سید بہادر بابا، دادا کا نام مست بابا اور پردادا کا نام غالب بابا تھا۔ آپ حسینی سید ہیں اور شجرہ نسب 23 واسطوں سے حضرت امام حسینؓ تک پہنچتا ہے۔ ان کی اولاد کاکا خیل میاں گان کہلاتی ہے۔ آپ کے پانچ بیٹے تھے جن کے نام آزاد گل‘ محمد گل‘ خلیل گل‘ عبد الحلیم اور نجم الدین تھے۔ آپ کی اولاد میں بڑے عالم و فاضل اور صاحبان دولت وحکومت شامل رہے ہیں۔ پختونوں اور اہل تصوف کی نگاہ میں آپ کی اولاد کو بڑی قدر و منزلت حاصل ہے آپ قرآن مجید کے ایک بڑے عالم تھے اور تصوف کے رموز و اسرار سے آگاہ تھے۔ آپ اپنے والد شیخ سید بہادر بابا سے سلسلہ سہروردی کی نسبت رکھتے تھے۔ آپ اپنے والد گرامی کی قبر مبارک پر عبادت کرتے اور چلے کاٹتے۔ کہا جاتا ہے آپ کی دعائیں اکثر قبول ہوتی تھیں اور آپ مستجاب الدعوات کے طور پر مشہور ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ تھے، گوشہ نشینی پسند تھی، کم بولتے تھے، ہمیشہ روزے سے ہوتے، رات کو عبادت کرتے، سچ بولتے، تواضع اور انکساری والے تھے۔ حد درجہ سخی، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کیلئے مہربان اور شفیق تھے۔آپ اللہ تعالیٰ کے سوا سب سے بے نیاز تھے۔ ان کے فرزند شیخ عبد الحلیم نے اپنی کتاب مقامات قطبیہ میں لکھا ہے کہ”میں ضعیف اور کمزور عرض کرتا ہوں کہ ایک دن میں نے اپنے شیخ صاحب (یعنی حضرت کاکا صاحب) سے عرض کیا کہ اے حضرت شیخ آپ کے پیر و مرشد محترم کون صاحب ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ خدا مجھے آپ کا درد نہ دکھائے شیخی کو میں نے شیوخ یعنی مشائخ کے لئے، پیری کو پیروں کیلئے اور سلوک کو سالکین اور تصوف کو صوفیاء کیلئے چھوڑ دیا۔ میں تو یہ چاہتا ہوں اور میری حالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کی زنجیر میرے گلے میں ڈال دی ہے چاہتا ہوں کہ یہ زنجیر میری گردن میں پڑی رہے اور میری گردن سے جدا نہ ہو۔“ وفات سے ایک سال قبل آپ شدیدبیمار ہوگئے مگر آپ پابندی سے نماز ادا کرتے رہے۔ جب کمزوری بڑھ گئی اور آپ خود کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے عاجز ہوگئے تو دو آدمی آپ کے بازو پکڑ کر آپ کو کھڑا کر دیتے اور آپ نماز ادا کر دیتے۔24رجب 1063ھ بمطابق 1657ء کو جب امام نماز جمعہ کا خطبہ پڑھنے نکلے تو آپ کی روح جسم اطہر سے نکل گئی۔