ملک کے مرکزی مالیاتی ادارے (سٹیٹ بینک آف پاکستان) کے گورنر کو تبدیل کر دیا گیا ہے جو بظاہر ایک معمول کا اقدام ہے لیکن اِس کے درپردہ نئی سیاسی حکومت کی مالیاتی نظم و ضبط اور بالخصوص مہنگائی سے متعلق ایک ”نئی سوچ“ اور ایک ”نئے عزم“ سے اصلاحات متعارف کرانا ہے اور عموماً اِس قسم کے اعلیٰ انتظامی عہدے پر چہرے کی تبدیلی کو ’تازہ ہوا کے جھونکے‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نئے گورنر سٹیٹ بینک کے لئے پہلا اور سب سے اہم چیلنج پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام لانا ہے‘ دوسرا غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بڑھانے ہیں‘ جو بہت تیزی سے کم ہو رہے ہیں اُور یہ دونوں کام آسان نہیں لیکن کس قدر مشکل ہیں اِس بات کا اندازہ اِن اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگست دوہزاراکیس میں پاکستان کے مجموعی غیر ملکی ذخائر کا حجم ستائیس ارب ڈالر جیسی بلند سطح پر تھا جبکہ 30اپریل2022ء کو پاکستان کے مرکزی بینک کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کا ذخیرہ صرف ساڑھے سولہ ارب ڈالر تھا۔ فروری دوہزاربائیس سے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں چھ ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے! اگر مالی امداد‘ قرضوں اور رول اوور کے حوالے سے اگلے چند ہفتوں کے دوران تقریبا سات ارب ڈالر سے نو ارب ڈالر کی آمد نہیں ہوتی تو پھر پاکستان کو اپنی مالیاتی ذمہ داریاں ادا کرنے (قرض و سود کی ادائیگیوں) میں مشکل پیش آئے گی اور ہر گزرتے دن پاکستان ایسے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ صرف حکومت یا صرف سٹیٹ بینک نہیں بلکہ اِن دونوں مالیاتی فیصلہ ساز ذمہ داروں کو بحران سے بچنے کیلئے مربوط کوششیں کرنا ہوں گی۔ پاکستان کے مالیاتی حقائق تلخ ہیں جن کی وجہ سے ملک کی مجموعی اور عام آدمی کی مالی مشکلات میں بالعموم اضافہ ہوا ہے۔ سٹیٹ بینک کے قائم مقام اور آنے والے گورنروں کو نئی قانون سازی بنام ”سٹیٹ بینک ترمیم شدہ ایکٹ 2022ء“ کے تحت افراط زر (مہنگائی) پر قابو پانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ مذکورہ تین برس کے عرصے میں مہنگائی ابتدأ میں سات سے نو فیصد جبکہ بعدازاں نو سے تیرہ فیصد کر دی گئی اور یہ تیرہ فیصد کی نفسیاتی حد بھی عبور کر چکی ہے! لہٰذا مرکزی بینک کے فیصلہ ساز کو ”پہلا کام اور پہلی فرصت میں“ افراط زر کے نتیجے میں مالیاتی دباؤ پر قابو اور ایسے اصلاحی اقدامات کرنے ہیں‘جن سے سرمایہ کاری بڑھے اُور لوگ غیرملکی کرنسی خریدنے کی بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کو زیادہ منافع بخش تصور کریں۔ پاکستان کو صرف شرح نمو ہی نہیں بلکہ پائیدار معاشی شرح نمو کی ضرورت ہے‘ جس کیلئے ازسرنو معاشی پالیسیاں وضع کرنی ہوں گی۔دوسری طرف معاشی پالیسیوں میں تسلسل وہ عنصر ہے جس کی موجودگی ضروری ہے۔ اگر ایک پالیسی بنائی جائے اور اس میں تسلسل نہ ہو یعنی حکومت تبدیل ہونے کے ساتھ وہ پالیسی بھی ختم ہو تو اس طرح معاشی پالیسیوں کے اثرات مرتب نہیں ہوتے اور وہ لاحاصل ثابت ہوتی ہیں۔ اب اگر کوئی پالیسی بنائی جار ہی ہے تو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس میں تسلسل ہو اور ا سکے ثمرات سے استفادہ کرنے تک اسے تبدیل نہیں کیا جاتا۔کیونکہ معاشی پالیسیاں اگرچہ بنتی تو اعلیٰ ترین سطح پر ہیں تاہم ان کے اثرات عام آدمی کی زندگی پر کہیں زیادہ مرتب ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ عام آدمی کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے موثر کوششیں کی جائیں۔