ریلوے‘غریب آدمی کی سواری

اس میں کوئی شک نہیں کہ ریلوے غریب آدمی کی سواری ہے۔جس کے حوالے سے ہر دور میں بہت کچھ کہا اور سنا جاتا ہے تاہم حقیقی معنوں میں اس ادارے کی طرف توجہ کبھی نہیں دی گئی۔ اگرہمارے حکمران خود ریلوے میں سفر کرنے کی ریت اپناتے تو عین ممکن تھا کہ ریلوے سے منسلک  وزرا ء اور ان کا عملہ ریلوے کے معیار کو اچھا رکھنے کی کوشش کرتے شنید ہے کہ اگر تاجر حضرات اشیا ء خوردنی یا دوسری اشیا ء صرف کراچی سے پشاور تک ریلوے کی مال گاڑیوں میں بجھوایں تو ان کا ٹرانزٹ کا خرچہ اس خرچے کے مقابلے میں بہت کم ہو جو ٹرکوں میں بجھوانے پر ان کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ اس مقصد کیلئے ٹرکوں کا استعمال کیوں کرتے ہیں۔ مال گاڑیوں کے استعمال سے جب ان کے مال کی ترسیل پر کم خرچہ ہوگا تو ظاہر ہے جو اشیا ء صرف مال گاڑیوں کے ذریعے ارسال کی گئی ہوں گی ان کے دام بھی کم ہوں گے اور اس کا فائدہ عام آدمی کو براہ راست ہوگا۔تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ ریلوے سروسز کے معیار کو بلند کیا جائے اور اس اہم ترین ادارے کو اس کی کلیدی حیثیت کے مطابق اہمیت دی جائے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہوگا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ریلوے کو کلیدی اہمیت دی جاتی ہے اور وہاں پر جہاز کی بجائے لوگ ریل کے آرام دہ، محفوظ اور تیز سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔چین، جاپان، فرانس  اور امریکہ میں ریل کے ذریعے سفر کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ ریلوے سروسز کا بلند ترین معیار ہے۔ ہمارے ہاں بھی اگر کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ریلوے جو غریب عوام کی سواری ہے کو منافع بخش اور مثالی ادارہ بنا یا جا سکے۔اب کچھ باتیں عالمی منظرنامے کی۔ جہاں انتشار ہی انتشار ہے۔چاروں طرف سے کوئی اچھی خبریں نہیں آ رہیں اگر ایک طرف کرہ ارض سیاسی انتشار کا شکار ہے اور بعض سپر پاورز خبط عظمت میں چھوٹے ممالک کو زندہ نگلنا چاہتی ہیں تو دوسری طرف  ماحولیاتی مسائل بھی بڑھتے چلے جار ہے ہیں۔ایک ماحولیاتی تحقیق کی رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت بڑھنے سے برصغیر میں ہولناک زلزلے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔وطن عزیز میں گرمی کی شدت سے امسال ہزاروں لوگوں کی ہلاکت کا بھی خدشہ ہے درجہ حرارت نصف صدی کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں نسل انسانی کا جو ضیاع ہوا اور جوہو رہا ہے۔ وہ ہم سب کے سامنے ہے ادھر کوئی دن جاتا ہے کہ تائیوان کے تنازعے پر چین اور امریکہ آپس میں گھتم گتھا ہو سکتے ہیں۔ یہ بات امریکہ کی برداشت سے باہر ہے کہ چین سکھ کا سانس لے اور زندگی کے ہر میدان میں ترقی کر کے اسے پیچھے چھوڑ جائے وہ ایک عرصہ دراز سے تائیوان کی  حکومت کی ہلہ شیری کر رہا ہے یہ تو چینی قیادت کا حوصلہ ہے کہ اب تک اس نے تائیوان کے معاملات میں برداشت کا مظاہرہ کیا ہے پر برداشت کی بھی ایک حد ہوا کرتی ہے خدا  نخواستہ اگر چین اور امریکہ میں جھڑپ ہوتی ہے تو وہ تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔دوسری طرف جزیرہ نما کوریا میں بھی حالات کشیدہ ہیں اورشمالی کوریا نے عالمی پابندیوں کی خلاف ورزیاں جاری رکھتے ہوئے مبینہ طور پر ایک نئے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ جنوبی کوریا کے مطابق آبدوز سے لانچ کیے جانے والا یہ میزائل جوہری وار ہیڈ سے لیس ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جنوبی کوریا  کی فوج نے بتایا ہے کہ شمالی کوریا  نے سمندر میں ایک شارٹ رینج بیلسٹک میزائل فائر کیا ہے۔ جنوبی کوریائی فوج کے مطابق شمالی کوریا نے ممکنہ طور پر آبدوز سے لانچ کیے جانے والا بیلسٹک میزائل ہفتہ سات مئی کو عالمی وقت صبح پانچ بج کر سات منٹ پر اپنے شمالی شہر سنپو کے قریب مشرقی ساحل سے فائر کیا تھا۔سنپو میں عموما پیانگ یانگ کی آبدوزیں اور بیلسٹک میزائلوں کے تجربے  کیلئے دیگر ساز و سامان موجود ہوتا ہے۔جاپان کی وزارت دفاع نے بھی پیانگ یانگ کی جانب سے بیلسٹک میزائل فائر کرنے کا بتایا ہے۔ جاپانی کوسٹ گارڈ نے مزید کہا کہ مذکورہ میزائل پانیوں میں تقریبا پانچ بج کر پچیس منٹ پر گرا تھا۔جاپانی نشریاتی ادارے این ایچ کے نے حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میزائل جاپان کے خصوصی اکنامک زون کے باہر گرا تھا۔یہ تازہ تجربہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب اس سے تین روز قبل ہی شمالی کوریا نے اپنے دارالحکومت کے ضلع سونان سے بھی ایک مشتبہ بیلسٹک میزائل فائر کیا تھا۔ رواں سال میں  شمالی کوریاکا یہ پندرہواں میزائل  تجربہہے۔دریں اثنا کچھ روز بعد جنوبی کوریا کے نومنتخب صدر یون سوک یؤل اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والے ہیں۔ یون نے دس مارچ کو صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی اور انہوں نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام  کے خلاف سخت ترین اقدامات کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس امر کیلئے وہ امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اشارہ بھی دے چکے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی بھی جنوبی کوریا کے نو منتخب صدر سے جلد ملاقات متوقع ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جزیرہ نما کوریا میں بھی امریکہ اورچین کے درمیان کش مکش جاری ہے۔ شمالی کوریا کے چین اور روس دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔امریکہ چاہتا ہے کہ چین شمالی کوریا پر دباؤ ڈالے تاہم جس طرح چین اورامریکہ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور ساتھ روس یوکرین تنازعہ بھی جاری ہے تو کم امکان ہے کہ شمالی کوریا پر چین اپنا اثر رسوخ استعمال کرے۔