امریکہ میں پرائمری انتخابات 

2022امریکہ میں وسط مدتی انتخابات کا سال ہے اور نومبر میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر امریکی کانگریس ریپبلکن یا ڈیموکریٹ پارٹی کے ہاتھوں میں جاسکتا ہے۔امریکہ کی سیاسی جماعتیں اپنے پارٹی کاکسز اور پرائمری انتخابات کے ذریعے طے کررہی ہیں کہ ان کے نیشنل کنونشنز میں کون سے مندوبین صدارتی امیدوار کے انتخاب میں ووٹ دیں گے اور اس سال کے آخر میں ہونے والے عام انتخابات میں ان کے امیدوار کون ہوں گے جو پارٹی جھنڈے تلے عام انتخابات میں حصہ لیں گے۔چونکہ پرائمری انتخابات کرانے کا کام ریاستی مقننہ پر چھوڑ دیا گیا ہے، اس لیے ہر ریاست کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے بنیادی انتخابات کیسے اور کب کرائے گی۔ یہ پرائمری انتخابات یا کاکسز ہر امریکی ریاست اور علاقے میں ہوتے ہیں۔ کچھ ریاستوں میں صرف پرائمری انتخابات ہوتے ہیں، کچھ میں صرف کاکسز ہوتے ہیں، جب کہ دیگر میں دونوں ہی ہوتے ہیں۔واضح رہے پرائمری انتخابات مقامی ریاستی حکومتوں کی نگرانی میں ہوتے ہیں جبکہ کاکسز ہر پارٹی کے نجی اجلاس ہوتے ہیں جن کے ساتھ ریاستی حکومتوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔امریکہ کی مختلف ریاستوں میں پرائمری انتخابات اور کاکسز میں نامزدگی کیلئے ووٹنگ کے دن مختلف ہوتے ہیں مگر اس کے بعد ملک بھر میں نومبر میں ایک ہی روز عام انتخابات ہوتے ہیں۔پارٹی کاکسز کے ذریعے صدارتی مندوبین کا انتخاب کیا جاتا ہے جو نومبر میں پارٹی کنونشنز میں ہر پارٹی کے صدارتی امیدوار کا تعین کریں گے۔پرائمری انتخابات کا طریقہ چونکہ امریکی ریاستوں پر چھوڑ دیا گیا ہے اس لیے مختلف ریاستوں میں اس کا انداز اور طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ چند ریاستوں میں کھلے پرائمری انتخابات ہوتے ہیں اور وہاں کے شہری ان میں کسی بھی پارٹی امیدوار کو چن سکتے ہیں یعنی کھلے انتخابات میں پارٹی سے وابستگی ضروری نہیں ہوتی اور آپ کسی بھی پارٹی کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ جبکہ چند ریاستوں میں بند یا محدود انتخاب کا طریقہ ہوتا ہے اور شہریوں سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ خود کو کسی پارٹی کے ووٹر کے طور پر رجسٹر کریں تاکہ وہ پھر اس پارٹی کے امیدوار کو ہی ووٹ دے سکیں۔ نیم کھلے پرائمریز اور کاکسز میں کوئی بھی رجسٹرڈ ووٹر کسی بھی پارٹی کو ووٹ دے سکتا ہے۔ لیکن جب وہ انتخابی عہدے داروں کو اپنی شناخت کرائیں تو صرف اپنی پارٹی کا خاص ووٹ مانگیں۔ نیم بند پرائمریز و کاکسز میں ووٹر جو کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ منسلک نہیں، کسی کو بھی ووٹ دے سکتاہے۔ڈیموکریٹک پارٹی سینیٹ میں اپنی پتلی اکثریت بچانے کی کوشش کر رہی ہے جہاں دونوں پارٹیوں کے ووٹ برابر ہیں مگر امریکی نائب صدر کمیلا ہیرس کا ووٹ ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے اور ایوانِ نمائندگان میں بھی اس کے ریپبلکن پارٹی سے صرف پانچ ارکان زیادہ ہیں۔اب تک ٹرمپ نے پرائمریز میں 150 امیدواروں کی حمایت کی ہے۔ ریبپلکن کے جیتنے والے امیدوار، خواہ وہ صدر ٹرمپ کے حمایت یافتہ تھے یا نہیں، سب مسلسل ان کا نام استعمال کررہے ہیں اور ان کی اطاعت کا دم بھر رہے ہیں۔ٹرمپ کی پہلی ترجیح ان وفاقی اور ریاستی مقننہ اور انتظامی امیدواروں کی حمایت ہے جو ٹرمپ کے غیر مصدقہ انتخابی دھاندلی بیانیہ پر یقین رکھتے ہیں تاکہ اگر موقع ملے تو وہ پھر صدارتی انتخابات میں اس کا ساتھ دیں۔ وہ امیدواروں میں اپنی وفاداری کے ساتھ ان کی شہرت اور تقریر کی صلاحیت بھی چاہتے ہیں۔ وانس کو بھی انہوں نے شہرت اور تقریری صلاحیت کی بنیاد پر چنا ہے۔ امریکہ کی ریاست اوہیو میں رپیبلکن پرائمری میں جے ڈی وانس، جس کی صدر ٹرمپ حمایت کررہے تھے، کی فتح نے صدر ٹرمپ کی پارٹی پر گرفت کا عندیہ دے دیا ہے۔وانس کی جیت ان سب کیلئے مایوسی کا سبب ہے جن کا خیال تھا کہ صدر ٹرمپ کی پارٹی پر گرفت کمزور پڑ چکی ہے۔ ان کے خیال میں وسط مدتی انتخابات پارٹی کیلئے فیصلہ کن موقع ہے اوراگر ان میں ان کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوگئے تو پھر 2024 کے صدارتی انتخابات کیلئے ٹرمپ ہی پارٹی کے امیدوار ہوں گے اور ان کے خلاف پارٹی میں کوئی اتحاد قائم کرنا مشکل ہو جائے گا۔اگرچہ ان کے حمایت یافتہ سب امیدواروں کی کامیابی کا امکان نہیں مگر سچ یہ ہے کہ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی پہچان بن چکے ہیں اور ریپبلکن رائے دہندگان ان کی جارحانہ طرز سیاست کے گرویدہ ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ ان کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی ایوان نمائندگان اور سینیٹ دونوں میں کنٹرول سنبھال لے گی اور اس طرح کانگریس کے دونوں ایوانوں میں جو بائیڈن کے قانون سازی کے ایجنڈے کو روکنے اور اس کی انتظامیہ کو سیاسی طور پر نقصان  پہنچانے کی پوزیشن میں آجائے گی۔سابق امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ چند مہینوں کے دوران بڑی ریلیاں نکالی ہیں اور پرائمری انتخابات میں بھی امیدواروں کی حمایت کررہے ہیں۔ انہوں نے 2024 کے صدارتی انتخاب لڑنے کا ابھی تک باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔ تاہم وہ اشاروں کنایوں میں بتا چکے ہیں کہ وہ پھر صدارتی امیدوار بن سکتے ہیں۔  توقع ہے کہ ٹرمپ 2022 کے وسط مدتی انتخابات کے بعد اپنا فیصلہ ظاہر کریں گے۔رپیبلکن پارٹی اور امریکہ میں ٹرمپ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ریپبلکن پارٹی کے کئی رہنما پیش گوئی کرچکے ہیں کہ اگر ٹرمپ 2024 میں دوبارہ صدر کیلئے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ریپبلکن نامزدگی جیت لیں گے۔  ٹرمپ سینیٹ نشستوں سے لے کر ریاستی سطح کی انشورنس اور فائر سیفٹی کمشنرز کی نامزدگی کی بھی نگرانی کر رہے ہیں۔ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر مٹ رومنی، جو ٹرمپ کے بڑے ناقدین میں گنے جاتے ہیں اور جنہوں نے دو مرتبہ ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا اور وہ غالباً اگلے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی حمایت نہیں کرنا چاہیں گے، کا خیال ہے کہ کسی ایسی چیز کا تصور مشکل ہے جو ٹرمپ کی حمایت گھٹا سکے گی۔ اس لیے ٹرمپ نامزد ہونا چاہیں تو وہ آسانی سے ہوجائیں گے۔ کئی دیگر ریپبلکنز اور ٹرمپ کے اتحادیوں مثلاًسینیٹر لنڈسے گراہم  اور سینیٹر جوش ہولی نے بھی ٹرمپ کی نامزدگی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔