اس دن مہمان آئے۔ فرمائش ہوئی کریلے اور قیمہ کھائیں گے۔ اپنے پیارے ہوں تو فرمائش کریں گے۔ پھر ان جیسوں کا کہا ہوا پورا نہ ہو یہ بھی تو اصولِ محبت میں شامل نہیں۔سو ہم کریلے تو لے آئے اگرچہ کہ قیمت میں یہ بھی پورے کے پورے چڑھے تھے۔مگر جیسے بھی سہی ان کی کڑواہٹ ختم کرنا اور پھر ان کو محبت کی شیرینی میں گوندھ کر ان کی تاثیر کو شہد کر دینا تو پھر اپنا کمال ٹھہرا جو ہماری بیگم صاحبہ پورا فرمادیتی ہیں۔۔مہمانوں کی لذت ِ کام ودہن کیلئے دکان پر قیمہ لینے کو اچانک بریک لگائے۔مگر دکان میں تو کچھ نہ تھا۔ اوپر والے شوکیس کے خانے میں سادہ قیمہ نہ تھا اورنیچے والے شیشے میں مسالے والا دونوں قیمے موجود نہ تھے۔ پھر اپنے ذوقِ تجسس کو تسکین دینے کیلئے پوچھاقیمہ نہیں ہے کیا۔دکاندار نے چہرہ بناتے ہوئے کہا نہیں جی۔ گوشت شارٹ ہے۔ہم نے کہا گوشت نہیں قیمہ چاہئے۔ کہنے لگے وہی نا۔ گوشت نہیں توقیمہ کہا ں سے آئے گا۔ پوچھا خیر تو ہے کبھی زندگی بھر نہیں سنا کہ گوشت بھی نایاب ہو جائے۔ جیسے دوائیں شارٹ ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ کمپنیوں کو ان کی قیمت بڑھانا مقصود ہوتی ہے۔ جب گاہکوں کاذوقِ طلب کریلوں کی طرح کڑوا ہونے لگے تو یہ ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہی دوا مہنگی قیمت پر بازارمیں لے آتے ہیں۔دونوں کی طلب پوری ہو جاتی ہے۔ ایک کی حرص اور دوسرے کو اپنی بیماری کو آرام مل جاتا ہے۔مگر یہ دوا تو نہ تھی کہ اشد ضرورت سے تعلق ہو۔ قیمہ نہ لیں تو بس نہ لیں کچھ اور کھا لیں۔ جو کھائیں خواہ دال ہو وہ بھی آگ کے نرخ پر ہے۔اب تو دال کھانا بھی آسان نہیں رہا۔وہ زمانے گئے جب کہتے کہ میں دال نہیں کھاتا۔ماں کچھ بجھیا پکا دیتی۔ آلو کا ہو یا ٹماٹر سبز مرچ او انڈا ڈال کر کچھ نہ کچھ معاملہ سلجھا ہی دیتی۔ مگر اب تو ہم اس حالت پر ہیں کہ ایک وقت نہ ملے تو صبر شکر کرتے ہیں۔مل جائے تو دال بھی کھانے کو تیار ہیں۔مگر دال ہو بھی توسہی۔اب تو دال کیلئے بھی لوگ تر س رہے ہیں۔قیمہ والے نے کہا پنجاب سے گوشت آنا بند کر دیا گیا ہے۔ اس لئے گوشت کا ملنا مشکل ہوا۔ اس نے کل کے پڑے ہوئے مسالہ والے قیمہ کی آفر کی جو ان کے ڈیپ فریزر میں پڑا تھا۔ حالانکہ ہمیں سادہ درکار تھا۔ سو موقع کو غنیمت جانا اور سہل الوصول قیمہ آدھ کلو ملا اور گھر کو موڑ کاٹی۔ آئے دن کوئی نہ کوئی جنسِ ارزاں نایاب اور گراں ہوئی جاتی ہے۔لیموں تو خیر ہم نے رمضان ہی میں ذہن سے نکال لئے تھے۔کیونکہ ہزار روپے کلو میں مل رہے تھے۔ لیموں تو مفت میں دو ایک باقی کی سبزی کے تھیلے میں سبزی والا خود ہی ڈال دیتاتھا۔ سبز مرچ بھی مٹھی بھر مفت مل جاتی۔ اب دکاندار سے کہو کہ تھوڑی سبز مرچ ڈال دینا تو کہتا ہے کتنی ڈالوں۔ دس کی ڈال دو۔اس کے بعد نگاہ اس کے ہاتھ پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ وہ دو چار مرچیں ڈال دیتا ہے۔ پھر کہنا پڑتا ہے یار ایسا کرو بیس کی کردو۔ کم نظر آرہی ہیں پورا دن گذر نہیں پائے گا۔ شہر کاجب یہ حال ہوگا تو ہمارا حال کیاہوگا۔ وہ جو زندگی کی ضروریات کے حصول پر قادر نہیں کہاں جائیں۔اب تو آٹے کی دھوم ہے۔ بارہ سو اور چودہ سو روپے میں بیس کلو کا تھیلا۔مگر سب کچھ پنجاب سے آرہاہے۔اس پر حیرانی ہے۔ہمارے ہاں کے سٹاک ختم ہورہے ہیں۔ مگر پیداوار کیوں نہیں ہے۔اب تو گول پیاز کا آوازہ ہے۔ناقابلِ خرید حد تک پہنچ گیا ہے۔یہ ایک سیریز ہے۔کبھی ایک چیز کبھی دوسری شئے گراں ہورہی ہے۔ننھی منی پیاز خریدو تو چورہ ملتا ہے۔اور کم پیسے دینا پڑتے ہیں۔پھرقیمتیں نیچے آتی بھی نہیں۔اوپر ہی اوپر جارہی ہے۔دکاندار تو رونے پر مجبور ہو گئے۔بعض کے پاس نقد ہوتے نہیں۔کریڈٹ پر اٹھا لیتے ہیں۔مگر اب ان کو بھی پنجہ میں کسا جا رہاہے۔کہتے ہیں نقد لاؤ۔چلو دکاندار مرتا کیا نہ کرتا کہیں سے کھینچ تان کر اپنا پنڈ چھڑا لیتا ہے۔مگر اس نے تو اپنا حساب کتاب ڈیلر سے نہیں گاہک سے برابر کرنا ہوگا۔ جتنا مہنگا لے گا اس سے زیادہ مہنگا فروخت کرے گا۔ سو اس کامطلب تو یہ ہوا کہ اس تمام جنجال میں اگر کسی ایک بندے کانقصان ہے تو وہ غریب گاہک ہے۔ جس کو اپنے گھر کی ضرورت کے لئے اشیاء جیسے تیسے خریدنا ہیں۔ دس روپے کا ایک ٹماٹر آج اور بیس دن قبل انیس روپے کا ایک خریدنا پڑتاتھا۔ اب مرغی کو لیں۔ مگر مرغی کو لینا بھی کیسا۔بس دیکھیں اور فوٹو کھینچ لیں۔تصویراپنے پاس رکھیں اور خوش ہوں۔کیونکہ جب ہر چیز قوتِ خرید سے باہر ہو رہی ہے تو مرغی کو کیا پڑی ہے کہ اپنے پروں اور ان کی وجہ سے مختصر سی اڑان کے ہوتے آپ کے ہاتھو ں میں آ جائے۔ رمضان کے بعدکہیں ڈیڑھ سو اور کہیں اڑھائی سو روپے اضافے میں قابلِ فروخت ہے۔