خون ہے پانی نہیں 

 سال میں ایک دن بچوں کی خون کی بیماری تھیلی سیمیا سے واقفیت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ مقصد یہ کہ جہاں اس بیماری کے بارے میں کم سے کم جانکاری ہے وہاں کے شہریوں کو اس بیماری سے بھرپور واقفیت دلائی جائے۔ تاکہ ان کے بچے اس اذیت ناک بیماری سے بچ سکیں۔ہمارے لوگوں کو اس بیماری کی معلومات سے دل چسپی نہیں۔جیسے یہ بیماری ان کو معاف کردے گی۔ ایسا ہوتا ہے جن کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا کہ یہ بیماری ان کے بچوں کو لگ جائے گی۔ مگر یہ بیماری کسی نہ کسی کو گھیر لیتی ہے۔اس بار اس بیماری کے عالمی دن کے موقع پر اس نکتہ سے آگاہی دلانے کی کوشش کی گئی کہ یہ بیماری چونکہ ماں باپ سے لگتی ہے  اس لئے چاہئے کہ  شادی سے پہلے اپنے خون کا ٹیسٹ کروائیں۔ اس ٹیسٹ کا نام ایچ بی الیکٹرو پروسس ہے۔یہ اتنا بھی مہنگا نہیں۔جہاں شادی کی رسومات کی بجا آوری کے لئے لاکھوں خرچ ہوتے ہیں وہاں تین ہزار او رخرچ ہو ں تو کیا برا ہے۔اگر ہونے والے شوہر بیوی میں سے یعنی دونوں کے خون میں یہ بیماری نہ ہو تو بھی اس بیماری کے ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔لہٰذا اس کا ایک ہی حل ہے وہ قبل از شادی خون کا ٹیسٹ ہے۔خاوند یا بیوی میں سے کسی ایک کے  خون میں نکل آئے تو مسئلہ نہیں۔لیکن دونوں کے خون میں ہونے کے  نتیجے میں اس بیماری کا ان کی اولاد میں منتقل ہونے کے سو فی صد چانس ہیں۔ حالانکہ میاں بیوی کو اس سے کچھ نقصان نہیں۔ اس لئے اولاد کے حوالے سے احتیاط ضروری ہے۔کیونکہ خدا نہ کرے کسی کے بچے کو یہ بیماری گھیر لے جو ظاہر ہے کہ انجانے میں ایسا ہوتا ہے۔ماں باپ تو کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے بچے کو ایک دن کا بخار بھی ہو۔مگر یہ بیماری تو عمر بھر کاروگ ہے۔بچے کے لئے الگ۔مگر بچے کو تو کم از کم چودہ سال کی عمر تک معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس کو کیا بیماری ہے۔اس کا اتنا شعور نہیں ہوتا۔ لیکن ماں باپ جس انداز میں بچے کی پیدائش کے بعد خون کی تنظیموں کے دفاتر میں رُلتے ہیں۔ پھر وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی منت سماجت کرتے ہیں کہ اس کے بچے کیلئے ہر چھ ماہ یاتین مہینے کے بعد یا پھر کم ہو کر بیماری کی شدت کے حوالے سے تیس دن کبھی دو ہفتے در در رُلنے کھلنے کے بعد خون چڑھایا جائے۔یہ بہت اذیت ناک ہے۔کس کس کی منت کریں گے۔ ایک دن نہیں ایک رات نہیں جو تکلیف میں گذار لیں۔ یہ تو روزانہ اورعمر بھر کا روگ ہے۔بچے کو گود میں لے لے کرگھومیں گے۔خون چڑھائیں گے اور واپس آئیں گے۔ پھر دوبارہ کچھ مدت کے بعد یہی مشق دہرائی جائے گی۔ خون ہے پانی نہیں ہے۔ عام لوگ بہت مشکل سے خون کی ایک بوتل دینے پر راضی ہوتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ خون دے کر وہ خدا نہ کرے دوسری دنیا کا ٹکٹ کٹوا لیں گے۔خون کا عطیہ کرنے سے الٹا صحت حاصل ہوتی ہے۔کیونکہ آدمی کے جسم میں پرانا خون تو چند ماہ میں ویسے بھی ضائع ہوتا ہے اور نیا بنتا ہے۔کیوں نہ اس پرانے والے خون میں سے پانچ سو سی سی کا چھوٹا بیگ جس کوعام زبان میں خون کی بوتل کہتے ہیں کسی کوعطیہ کردیں۔سو سے زیادہ خون دینے والے بھی موجودہ ہیں اور سو کے قریب بھی خون کا عطیہ دینے والے بھی جیتے جاگتے صحت مند گھوم پھر رہے ہیں۔خون کا نہ دینا ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ کیونکہ بندہ گھبراتا ہے۔مجھے اپنی مثال اس لئے دینا پڑے گی تاکہ دوسروں کو میری بات پر اعتبار آئے۔میں نے اب تک 137بار خون دیا ہے۔جو ورلڈ ریکارڈ ہے۔میری اہلیہ اور بیٹے نے پچاس پچاس بار خون عطیہ کیا۔بیشتر ٹی وی چینل میرے ساتھ پروگرام کرچکے ہیں۔ریڈیو پاکستان اور ایف ایم ریڈیو کے چینلوں پر اس حوالے سے آن ایئر جا چکا ہوں۔نشتر ہال میں سابق میئر پشاورنے فخر پشاور کے ایوارڈ سے نوازا۔بعد میں ڈپٹی میئر نے پشاور ایوارڈ دیا۔وہ ہمارے گورنمنٹ کالج پشاور کے اردو پروفیسر شاہ سعودکا خوبصورت شعر ہے ”محبت سرسری قصہ نہیں ہے۔ ذرا تفصیل میں جانا پڑے گا“۔ مگر مجھے اپنے حوالے سے خون کے عطیہ کے باب میں کالم کے اختصار کو سامنے کر تفصیل میں نہیں جانا۔مگر یہ کہ 8مئی کو جو عالمی دن اس حوالے سے منایاجاتا ہے اس کا مقصد  اس باریہ ہے کہ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی اپنے اپنے خون کا ٹیسٹ کروائیں۔