ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے خاتمے کیساتھ اس کے تمام منصوبوں کو بھی بیک جنبش قلم ختم کر دیا جاتا ہے یہ دیکھے بغیر کہ ان میں سے کونسے منصوبے مفید ہیں اور کونسے نہیں۔ اب تو یہ روش ختم ہو عوام کو سہولیات کی فراہمی اور ان کو مطمئن رکھنا ہی کسی بھی حکومت اور انتظامیہ کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔اچھے منصوبوں کاتسلسل ہی ان کو عوام کیلئے مفید اور موثر بنا سکتا ہے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد اب ایک اور سنجیدہ مسئلے کا ذکر ہوجائے، جس کا تعلق براہ راست ہماری زندگی سے ہے‘یوں تو پورے ملک میں پانی کے بحران کا خدشہ ہے تاہم صوبہ سندھ میں یہ حقیقی معنوں میں موجود ہے‘صوبہ سندھ کے زمینداروں کاکہنا ہے کہ ہم پانی کے مسائل سے دوچار ہیں مگر یہ سال تو پانی کی قلت کی وجہ سے بدترین رہا ہے‘ ہمیں تو عملی طور پر قحط سالی کا سامنا ہے‘ان کا کہنا تھا کبھی ہمارے بچے شہروں کے سکول میں پڑھتے تھے۔ اب ہم نے ان کو واپس بلا لیا ہے کیونکہ ہمارے پاس ان کی فیسیں اور اخراجات ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں‘ اب وہ گاؤں ہی کے سکول میں پڑھتے ہیں‘انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے مطابق اس وقت پورا ملک ہی کسی نہ کسی حد تک پانی کی قلت کا شکار ہے۔ سندھ میں یہ قلت پچاس فیصد تک ہے جبکہ جنوبی پنجاب میں یہ قلت ستر فیصد تک ہے۔
سندھ میں اس وقت کوٹلی بیراج سے منسلک اضلاع میں تو عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ زیر زمین پانی کڑوا اور زہریلا ہوچکا ہے۔ ربیع کی زیادہ تر فصلیں خراب ہوچکی ہیں جبکہ مال مویشی کیلئے بھی پانی دستیاب نہیں ہے‘ بعض علاقوں میں تو دریائے سندھ پر انحصار کرنیوالے آخری اضلاع سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں‘ زمینیں خالی پڑی ہیں، کسانوں اور زمینداروں کے گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں، لوگ مجبور ہو کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں کہ وہاں پر محنت مزدور کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں‘ ان اضلاع میں کسی زمانے میں کیکر کا درخت لگا کرتا تھا۔ جب کبھی پانی کی قلت زیادہ ہوتی، کسان اور زمینداروں کو فصل میں کوئی نقصان وغیرہ ہوتا تو وہ کیکرکو کاٹ کر اپنی گزر بسر کرلیا کرتے تھے۔ مگر گزشتہ پانچ سالوں اور خاص طور پر اس سال تو کیکر کے درخت بھی نہیں ہیں کیونکہ زمین بالکل خشک ہوچکی ہے۔ زمینداروں کا کہنا ہے کہ ہمارے مال مویشی بھی مر رہے ہیں۔
ہم اپنے مویشیوں کو زہریلا زیر زمین اور گندا پانی پلانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ کسی زمانے میں ہماری بھینس کی قیمت دس لاکھ روپیہ ہوا کرتی تھی۔ اب اس کو کوئی دو لاکھ میں بھی نہیں لیتا ہے۔ ہماری بکری کبھی ہاتھوں ہاتھ تیس ہزار کی فروخت ہوا کرتی تھی۔ اب کوئی پانچ ہزار بھی دینے کو تیار نہیں ہے۔واضح رہے کہ محکمہ موسمیات کے مطابق مارچ اور اپریل میں بارشوں کی ریکارڈ اوسط تاریخی طور پر کم رہی ہے۔ اس وقت بھی ملک خشک سالی کے دور سے گزر رہا ہے۔پانی اور ماحولیات کے ماہر ین کہتے ہیں کہ پانی کی قلت کا ایک سبب خشک سالی ہے تو دوسرا اہم سبب پانی کی تقسیم کا طریقہ کار اور تعمیر کی گئی نہروں کا ڈھانچہ ٹھیک نہ ہونا اور جدید طریقے اختیار نہ کرنا ہے۔ارسا کے مطابق اس وقت ملک بھر میں پانی کے ذرائع دریاؤں اورڈیموں میں اوسط توقع سے مجموعی قلت 38فیصد ہے۔ جس میں دریائے سندھ اور تربیلہ ڈیم میں 13فیصد، دریائے کابل میں 46 فیصد، دریائے جہلم اور منگلہ ڈیم میں 44فیصد، دریائے چناب میں 48 فیصد اور دیگر ذرائع میں یہ کمی 66 فیصد ہے‘ ماہرین کے مطابق یہ سال خشک سالی اور برف باری کے حوالے سے بدترین رہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سندھ میں اس وقت جو زراعت ہے یہ مکمل طور پر دریائے سندھ کے مرہون منت ہے‘ یہ کوئی آج کا نہیں بلکہ کئی سو سالوں کا معاملہ ہے۔ مارچ، اپریل اور مئی کے آغاز میں پانی کا زیادہ انحصار برفباری پر ہوتا ہے۔
گلیشیئر پر موجود برف کا مئی کے بعد پگھلنا اور اس کا پانی دریاوں میں شامل ہونا شروع ہوتا ہے۔ اب ہوا یہ کہ سردیوں میں کم بارشیں ہوئیں اور برفباری بھی ریکارڈ کم ہوئی۔ جس کی وجہ سے مارچ اور اپریل میں پانی کم رہا تھا۔ موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کے موسم پنجاب سے ایک ماہ آگے ہیں۔ یعنی سندھ میں پنجاب سے ایک ماہ پہلے گرمیوں کا سیزن شروع ہوتا ہے۔ جس وجہ سے ربیع کا سیزن بھی پہلے شروع ہوتا ہے۔ جس وقت پنجاب میں گندم کاشت کی جارہی ہوتی ہے اس وقت سندھ میں گندم کی کٹائی کا وقت ہوتا ہے۔ جس کے سبب سندھ کو عموما ًمارچ اور اپریل میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سال سندھ میں پانی کی قلت شاید تاریخی ہے‘ جس سے کھڑی فصلیں خراب ہوچکی ہیں اور یہ حالات صرف سندھ میں درپیش نہیں ہیں،سندھ کو جس پانی کی قلت کا اب سامناہے عنقریب ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہی حالات جلد سامنے آئیں گے جس کیلئے اب مستقبل بنیادوں پر حل تلا ش کرنا ہوگا۔ نئے ڈیم بنانے ہوں گے کیونکہ ہمارے پاس پانی کے ذخائر نہ ہونے کے سبب بارشوں اور سیلابوں کا پانی سمندر میں گر جاتا ہے۔