آتشزدگی: مالی و ماحولیاتی نقصانات

گزشتہ ہفتے کی سہ پہر تین بجکر پچپن منٹ کے قریب ریسکیو 1122 (نوشہرہ) کو ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں جی ٹی روڈ پر واقع ایک نجی آئل ٹینکر سٹینڈ میں آگ لگنے سے آگاہ کیا گیا۔ جائے وقوعہ پر پہنچنے والے فائر فائٹرز کو احاطے کے واحد دروازے کے بالکل ساتھ ایک ٹینکر میں آگ لگی ہوئی ملی جس نے ان کی پیشقدمی روک رکھی تھی‘ جب وہ دور سے آگ بجھانے کی کوشش کر رہے تھے تو آگ ایک ٹینکر سے دوسرے ٹینکر میں چھلانگ لگاتی رہی اور یہ کتنا بڑا خطرہ تھا کہ مذکورہ مقام پر کھڑے آئل ٹینکروں میں سے بیشتر ایسے تھے جن میں سے ہر ایک میں پچاس ہزار لیٹر تک پٹرول بھرا ہوا تھا اور جن گاڑیوں میں آگ لگ چکی تھی اُن کے شعلے اور دھواں پھیل چکا تھا۔ مذکورہ آگ آٹھ گھنٹے سے زیادہ عرصے تک بھڑکتی رہی اور آٹھ مئی کی علی الصبح بجھانے تک کم از کم 45 آئل ٹینکروں کو خاکستر کر گئی۔ یہ آگ اتنی شدید اور بڑے پیمانے پر تھی کہ اِس مقام سے مغرب میں قریب بیس کلومیٹر دور پشاور میں بھی اِس سے اُٹھنے والے دھوئیں دکھائی دے رہے تھے۔ آگ سے اٹھنے والی دھول اور دھویں نے قریبی (نواحی) رہائشی علاقے ”تارو جبہ“ کو بھی متاثر کیا جو ”چپلی کباب“ کیلئے شہرت رکھتا کے لئے مشہور ہے اور ضلع نوشہرہ سے گزرنیوالے جی ٹی روڈ کے کنارے آباد ہے۔
 اِس دیہی علاقے کا نام ”تارو“ یعنی سیاہ تیتر سے مستعار لیا گیا ہے جبکہ ”جبہ“ کا مطلب دلدلی علاقہ ہے‘حال ہی میں ضلع نوشہرہ میں لگنے والی آگ پہلی مرتبہ دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ یہ قصبہ خیبرپختونخوا میں پیٹرولیم ذخیرہ کرنے کی سب سے بڑی سہولت ہے جو 1986ء میں قائم کی گئی تھی جس میں 80 ملین لیٹر (آٹھ کروڑ لیٹر) انتہائی آتش گیر پیٹرولیم مصنوعات ذخیرہ کرنے کی صلاحیت تھی۔ یہ چترال کے علاؤہ صوبے کے تمام حصوں کو پیٹرولیم کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ ضلع نوشہرہ کے میں حالیہ آتشزدگی کو دس دن سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی ایسی کوئی وضاحت سامنے نہیں ہے جس پر یقین کیا جا سکے کہ آگ کیسے لگی جبکہ اِس کے پھیلنے کی ایک وجہ یہ ضرور بطور شکایت بتائی جاتی ہے کہ آگ بجھانے کے عمل میں آگ زیادہ پھیلی۔ آتشزدگی سے متعلق ڈرائیورز‘ چوکیداروں‘ پولیس‘ فائر فائٹرز اور عینی شاہدین کے الگ الگ بیانات ہیں چونکہ آگ ایسے وقت میں لگی جبکہ زیادہ تر ڈرائیور افطار کی تیاری کیلئے قریب بازاروں کی طرف گئے ہوئے تھے‘ اِس لئے جانی نقصان نہیں ہوا لیکن آگ لگنے کے بعد ہر ڈرائیور جائے وقوعہ کی طرف بھاگا تاکہ گاڑی یا گاڑی کے اندر رکھے ہوئے اُس کے کاغذات بچا سکے۔ عینی شاہدین کے مطابق ریسکیو اہلکاروں نے جانیں خطرے میں ڈالتے ہوئے۔
 گاڑیوں کے شیشے توڑ کر اُن کی چابیاں تلاش کیں تاکہ آس پاس کھڑے اور محفوظ ٹینکروں کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کیا جا سکے لیکن وہ اپنی اِس کوشش میں کامیاب نہ ہوئے‘ آگ کیسے لگی اِس بارے میں پاکستان سٹیٹ آئل  اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی تفصیلات جاری کریں گے‘ جس کا سب کو انتظار ہے‘ڈرائیوروں کا کہناہے کہ پیٹرول سے بھری ہوئی گاڑیاں اگر فوراً خالی کر لی جائیں اور اُنہیں 20 دن تک انتظار نہ کروایا جائے تو ایسے حادثات کو ہر چند ماہ بعد رونما ہوتے ہیں روکے جا سکتے ہیں ہر ہفتے تین سے ساڑھے تین سو آئل ٹینکر پٹرول سے بھری گاڑیاں اگر اپنی باری کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں تو شدید گرمی کے موسم میں معمولی سی بے احتیاطی سے پیدا ہونے والی کوئی ایک چنگاری کروڑوں روپے اور ماحولیاتی نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ مستقبل میں ایسی کسی ناخوشگوار صورتحال  سے بچنے کیلئے انتظار کرنے والے آئل ٹینکروں کی تعداد ساڑھے تین سو سے کم کر کے پچاس کر دی جائے یا پھر یومیہ کم سے کم پچاس ٹینکروں کو خالی کرنے کا انتظام کیا جائے۔