ہمارے گھر میں تو سوئی گیس کے چولھے صاف و شفاف رہتے ہیں‘صاف ستھرے نتھرے ہوئے۔ اتنے بھی گندے نہیں کہ ہفتہ دس دن میں ایک بار گیلی صابن کی دھجی سے چمکا لئے جائیں۔ کیونکہ گیس کہاں ہے جو چولھا جلے اور اس پر ہنڈیا پکنے کو دھری جائی۔ قہوے کا ایک کپ ہی پکانا ہو مگر کیسے پکے گا۔ ہاں اپنی ڈگریاں اور سرٹیفیکیٹ اور اخبارات جن میں ہمارے مضامین شائع ہوئے جو سنبھال کر رکھے ہیں‘ان کو اگر ماچس کی دیاسلائی چمکتی ہوئی روشن سی دکھلا دی جائے تو یہ کاغذات جل اٹھیں اور قہوہ جو صبح سلینڈر پر پکا تھا اس کو سلینڈر گیس ختم ہونے کے سبب اس ننھی منی اور ٹھنڈی ٹھنڈی آگ پر گرم ہی کرلیں۔وہ کتابیں جو الماریوں میں تھوک کے حساب سے سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں۔ وہ نوٹس جو بوریوں میں بند پڑے ہیں ان کو نکال کر ایندھن کے طور تھوڑا تھوڑا جلا کران سے روزکچھ نہ کچھ پکایا جا سکتا ہے۔ا س پر بھی ہزاروں کے سوئی گیس بل الگ جمع کرواؤ۔ پھر دو ایک ماہ خطا ہوں تو میٹر کاٹنے کی دھمکیاں وصول ہوتی ہیں۔ ارے گیس ہے کہاں جو میٹر کاٹنے کو کہتے ہو۔ہم تو سلینڈر سے کام لیتے ہیں۔
ہزار روپے کی گیس پانچ کلو اور دس دن تک چل ہی جاتی ہے۔ان دنوں سلینڈر گیس کاروباربہت اچھا چل رہاہے۔مہمان آئے اور عید گرم رہی۔مگر ہمارا سوئی گیس والاچولھا کاربن او ردھول دھبوں سے آلودہ ہونے نہ پایا۔ بس گیس سلینڈر کی شامت تھی۔ جاتے او ربھروا کر لے آتے‘ان دنوں سلینڈر کی گیس خوب استعمال ہوئی‘پھر احتیاط کے طور پر ایک نہیں دو دو سلینڈر رکھے کہ ایک پر سے چاول کا دیگچہ اُتار نہیں سکتے۔ دوسرے پر قہوہ کی کیتلی دھری ہے تاکہ اس دوران میں مہانوں کے آگے قہوہ پروسا جا سکے اور ساتھ مونگ پھلی کا آئٹم بھی چلا دیا جائے کہ دانتوں سے کتریں اور ہونٹوں سے قہوہ کی سُرکیاں لیں‘یوں گپ شپ کے ماحول میں تسکین کاسامان مہیا ہوتا جائے‘ہا ں گیس آتی ہے مگر اس وقت ہمارے خود کے آرام کا وقت ہوتا ہے‘سارا دن جل جل کر جب ہم خود ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور کڑھ کڑھ کر جب سونے کیلئے دماغ بوجھل ہونے لگتا ہے تو ہمسایوں سے سنا کہ رات کے پچھلے پہر اس وقت گلی میں گیس دھیرے دھیرے قدم رکھتی ہے‘ گھر گھر میں سیلنڈروں کا راج ہے۔پھر چھ ماہ پہلے سنا سوئی گیس کو سرے سے ختم کر رہے ہیں۔
اب تو ہر گھر میں گیس سلینڈروں کا راج ہوگا۔ سوئی گیس ماضی کا حصہ بن جائے گی۔چلو گیس اگر سلینڈر سسٹم سے جوڑ دی جائے تو برا نہیں۔ ہاں اتنا کہ گیس او رزیادہ مہنگی ہو جائے گی۔ یہ ایک آدمی کی فریاد نہیں یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے او رگھر کے اندر مکینوں میں سے ہر دل کی آواز بن چکی ہے۔اب تو جیسے سورج سے بجلی لی جاتی ہے اس طرح گھر گھر گیس کے پلانٹ لگیں گے۔گوبر گیس کا بہت شہر ہ سنا۔مگر شہر میں گائے بھینسیں بھی تو نہیں ہوتیں۔ وہاں کے تنگ وتاریک ماحول میں شہریوں کیلئے دو پاؤں کی جگہ دستیاب نہیں جہاں یہ لوگ رین بسیرا کرلیں۔ایسے میں کچی زمین بھی کہاں سے آئے گی‘جہاں بھینسوں بیلوں گائیوں اور سانڈوں کو پالاجائے گا‘ دودھ کیلئے نہیں مگر گوبر کیلئے تاکہ ان کی ٹکیاں بنا کر دیوار پر تھوپ دیں اور سوکھ جائیں تو ان سے اول تو پتھروں کے چولھوں میں آگ جلانے کو جھونک دیں۔
پھر صحن میں کہیں ہانڈی چولہاکا کونہ سا سجا لیں۔ پھر اس کیلئے بھی شہر کے اندرون کم ا ز کم پندرہ مرلہ کا مکان چاہئے جو ناممکن ہے‘ گائے بیل تو رکھ لیں مگر ان کو چکر دلانے کوویرانے اور چراگاہیں کہاں سے لائیں گے۔یہاں بندہ بندے کے پاس سے رگڑاتا ہوا گذرتا ہے۔ایسے میں گائے بیل کی جگہ کہاں۔اس جھنجھٹ کے پالنے سے بہتر کہ سلینڈر کے انتخاب پر ٹک مارک کر لیں۔ خواہ یہ گیس جتنی مہنگی ہو اسی پر گزران کریں اور زندگی کے جتنے ایام اور بھی سخت ہیں ان کی گزر اوقات کیلئے صبر کرنا سیکھنے کو جی کڑا کر لیں۔اب گھروں میں بھی گیس پلانٹ قائم کرنے کیلئے وافر خطہ ئ زمین درکار ہے جس کی طلب بیکار ہے جب سلینڈر گیس تیار ہے تو بازار میں خریدار ہے‘ اس طرح تو گزر نہیں پائے گی مگر گزاریں گے۔