فلم کسی بھی معاشرے کی عکاس ہوتی ہیں اور اِن کے ذریعے اُن اچھائیوں کو اُجاگر کیا جاتا ہے جو سماج میں ایسی بُرائیاں بنی ہوتی ہیں‘ جو عموماً دکھائی نہیں دیتیں لیکن اگر اُن کی اصلاح کی جانب عوام کی توجہ مبذول کروائی جائے تو یقینا روئیوں میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ فلم کے اِس تعمیری پہلو کی وجہ سے اِس کے تفریحی امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں لیکن پاکستان کی فلمی صنعت ایک عرصے سے کاروباری فائدہ نہ ہونے کے باعث کسی بھی مثبت کردار کی ادائیگی سے تقریباً کنارہ کشی اختیار کر چکی ہے! رواں برس (سال دوہزاربائیس) میں اب تک چار اردو‘ ایک پنجابی اور چند دیگر زبانوں میں فلمیں نمائش کیلئے پیش کی گئیں مگر اِن میں کوئی بھی اپنا ’تاثر‘ قائم نہیں کر سکی اور نہ ہی فلمی شائقین و نقادوں نے اِن کے بارے میں بحث کو ضروری سمجھا‘ رواں برس کی چار اردو فلموں میں یاسر نواز کی ’چکر’وجاہت رؤف کی ’پردے میں رہنے دو‘ عدنان صدیقی کی ’دم مستم’اور حسن ضیا و جمیل بیگ کی‘گھبرانا نہیں ہے’شامل ہیں۔ ’پردے میں رہنے دو‘ نامی فلم کی کہانی میں بچے پیدا کرنے کا مقابلہ رہا اور فلم کے سبھی سارے کردار اسی کام میں لگے رہے۔
تیسری فلم ’دم مستم‘ کا حال اتنا بُرا ہے کہ ڈرامے کے ایک ہی مرکزی مقبول کردار کو اُسی اداکار سے فلم میں دوبارہ کروا کر‘ فلم بنا دی گئی۔ اس فلم میں ہیروئن کا کردار کچھ عرصہ پہلے اسی چینل کے زیرِ اہتمام ایک سپرسٹار‘ ماہرہ خان کرچکی ہیں بلکہ اب تو انہوں نے بھی کہا ہے کہ ’میری فلمیں بنتی تو ہیں مگر ریلیز نہیں ہوتیں۔‘ ہوں بھی کیسے کیونکہ سب کو عید پر جو فلمیں ریلیز کرنی ہیں۔ سارا سال سینما تھیٹرز والے بھلے فارغ بیٹھے رہیں۔ چوتھی فلم ’گھبرانا نہیں ہے“ جس میں فینٹیسی اور کامیڈی کے اجزائے ترکیبی ملا کر کہانی کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ روایتی کہانی ہے اور اس فلم کو ناقص قرار دیئے جانے کی سب سے بڑی وجہ اس کا مرکزی کردار ہیں‘ البتہ سید جبران اور جان ریمبو کی اداکاری متاثر کن رہی۔ صبا قمر بھی بس ٹھیک ہی رہیں مگر نیئر اعجاز اپنے فن کے عروج پر ہیں۔
ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو سلام ہے‘ بے شک وہ ہماری فلمی صنعت کا حقیقی فخر ہیں۔ ان پانچوں فلموں میں‘گھبرانا نہیں ہے‘ قدرے بہتر فلم ہے کیونکہ اس میں اپناپن زیادہ ہے‘ اپنے سماج کی حسِ مزاح جھلک رہی ہے‘ پھر خاص طور پر فلم میں پس منظر کی موسیقی اور نغمات نے فلم کے امیج کو کافی سہارا دیا ہے۔ یہی ایک کام ایسا ہے جس میں یہ ایسوسی ایشن کئی برسوں سے فعال ہے‘ وگرنہ پاکستان میں کسی فلم پر پابندی لگ جائے‘ جھوٹے باکس آفس بنائے جاتے رہیں‘ فلم کی پالیسی بنانے کی ضرورت ہو یا کچھ اور‘ کسی کام میں مجال ہے یہ اپنے ہونے کا احساس دلائے۔ پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ”غیر ملکی فلمیں پاکستان میں فلمی صنعت کو تباہ کردے گی“ اُن کامطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت مداخلت کرے اور باضابطہ طور پر اِس مسئلے کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔
پاکستان کی فلمی صنعت کے ذمہ داروں کا ماننا ہے کہ اُن کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے‘ اس کے بعد آئندہ فلمیں بنانے سے پہلے سوچیں گے۔ رواں برس پانچ پاکستانی فلموں کے ساتھ غیرملکی فلموں کو نمائش کی اجازت دینا کے حوالے سے فلمی صنعت کے فیصلہ سازوں کا کہنا ہے کہ اِس سے اُن کی ”حق تلفی“ ہوئی ہے۔اس وقت فلم انڈسٹری کو سہارا دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس سے وابستہ خاندانوں کو معاشی مشکلات سے چھٹکارا مل سکے تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ معیار پر بھی سمجھوتہ نہ ہوکیونکہ یہی وہ پیمانہ ہے جس سے فلم انڈسٹری کو ترقی دی جا سکتی ہے اور اس صنعت کو مشکلات سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہماری فلمیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جاتی تھیں اور ہمارے فن کاروں کا مقابلہ دنیا کے کسی بھی ملک کے فنکاروں سے کیا جاسکتا تھا۔