بروقت اقدامات کی ضرورت

ہمارے ہاں تو یہ روش چل نکلی ہے کہ جب مسئلہ حد سے گزر جائے تو اقدامات اور اس کے حل کے حوالے سے تگ و دو شروع ہوجاتی ہے، تب مسئلے کے تدارک کیلئے زیادہ وقت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ ہمیں اب بروقت اقدامات کرنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ کورونا وبا کی نئی قسم سامنے آنے کے بعد اب دوبارہ ہمیں محتاط طرز زندگی کی طرف جانا پڑیگا۔ ساتھ ہی  بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں ہیضے کی وبا پھوٹنے سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔مقامی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر   کے مطابق صورتحال سنگین ہونے کے باعث علاقے میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں جو ہسپتال ہیں، ان میں جگہ دستیاب نہیں اور اس وجہ سے وہاں خیمے لگائے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہیضے اور پیٹ کی دیگر بیماریوں کی وجہ پینے کا پانی انتہائی آلودہ ہونا ہے اور اگر پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔
وزیر اعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے محکمہ پبلک ہیلتھ کو لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے ایک کروڑ روپے کا خصوصی فنڈ جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔دوسری جانب صحت کے شعبے کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ سندھ کے شہر کراچی کو حالیہ برسوں میں ہیضے کی بدترین وبا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ صوبے میں بڑی تعداد میں مریض ہیضے کی علامات کے ساتھ ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں اور ان میں بچوں کی بڑی تعداد ہے۔سندھ میں بچوں کے سب سے بڑے ہسپتال نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے ڈائریکٹر کے مطابق ان کے پاس روزانہ کی بنیاد پر ہیضے کے 10 سے 15 کیس رپوٹ ہو رہے ہیں۔ 
اس کے علاوہ بہت سے کیسز ایسے بھی ہیں جن میں شدید دست کی شکایت کی جا رہی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان میں تقریبا ہر برس پانچ برس سے کم عمر کے 53 ہزار 300 بچے شدید اسہال یا دست کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ پورے ملک میں پینے کے پانی کے آلودہ ہونے کی رپورٹیں منظر پر عام پر آرہی ہیں اور اب ضروری ہے کہ اس حوالے سے موثر اور ہنگامی اقدامات کئے جائیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے کیونکہ اس سے لاتعداد قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں جن کا تدارک پھر مشکل اور مہنگا عمل ہے۔اب کچھ تذکرہ ہوجائے عالمی منظر نامے کا جہاں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کو خبردار کیا ہے کہ اگر نیٹو کے کسی بھی ملک پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ایسا اقدام گیم چینجر کا باعث ہوگا۔لائیڈ آسٹن نے امریکی فوجی جنرل مارک ملی کے ہمراہ قانون سازوں کو دوران سماعت بتایا کہ یہ ایک ایسی لڑائی ہے جسے روسی صدر کو واقعی نہیں کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ روس ایسا خطرہ مول نہیں لینا چاہے گا میرا خیال یہ ہے کہ روس نیٹو اتحاد کا مقابلہ نہیں کرنا چاہے گا۔ امریکی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ اگر روس نے نیٹو کے کسی بھی رکن ملک پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ گیم چینجر ہوگا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ نیٹو کے ارکان پہلے ہی اس امر پر بات کر چکے ہیں کہ روسی حملے کی صورت میں کس قسم کا ردعمل کیا جائے گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کی ہدایت کے بعد واشنگٹن ایسے کسی بھی حملے کیلئے مکمل طورپر تیار ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا امریکا موجودہ صورتحال کا باغور جائزہ لے رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ چیزیں تیار کررہا ہے۔
خیال رہے کہ نیٹو معاہدے کے آرٹیکل 5 کے مطابق اگر کوئی ملک نیٹو کے رکن ملک پر حملہ کرتا ہے تو تمام اتحادی ممالک حملہ کرنے والے ملک کے خلاف ضروری اقدامات کریں گے۔دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مستقبل قریب میں انہیں امن مذاکرات ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ انہوں نے کہاکہ یہ جنگ ہمیشہ جاری نہیں رہے گی۔ ایک وقت آئے گا جب امن مذاکرات ہوں گے۔ البتہ مستقبل قریب میں ایسا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ سیکرٹری جنرل نے آسٹریا کے صدر کے ساتھ مذاکرات کے بعد ویانا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کی۔ ان کے بقول وہ اور ان کا ادارہ امن مذاکرات کے لیے کوشش کرتے رہیں گے، ہمت نہیں ہاریں گے۔اس وقت یوکرین کے کئی حصوں میں جنگ جاری ہے۔ جنوبی خیرسون خطے میں ماسکو حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے درخواست کریں گے کہ اس خطے کو روس میں ضم کر لیا جائے۔ چوبیس فروری کو حملہ شروع کرنے کے بعد خیرسون وہ پہلا شہر ہے، جس پر روس نے قبضہ کیا تھا۔ 
یہ خطہ کریمیا کے شمال میں واقع ہے، جس پر روسی فورسز نے سن 2014 میں قبضہ کر کے اسے روسی سرزمین میں ضم کر لیا تھا۔یوکرین نے کہا ہے کہ ملک کے مشرق میں ایک اہم مقام سے روسی گیس کی ترسیل  روکی جا رہی ہے۔ پائپ لائن آپریٹر کے مطابق مغربی یورپ تک پہنچنے والی قدرتی گیس کا ایک تہائی حصہ نووپسکوو سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت یوکرین روس جنگ کے پھیلاؤ کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے اور کسی بھی وقت اس آگ کی چنگاریاں یورپ کے دیگر ممالک تک پھیل سکتی ہیں جس سے تیسری عالمی جنگ چھڑجانے کاخطرہ ہے۔ امریکہ وزیر دفاع نے روس کو جو تنبہیہ جاری کی ہے اس سے تو یہ مطلب نکل سکتا ہے کہ امریکہ کسی نہ کسی طرح روس کو یورپ میں نہ ختم ہونے والی جنگ میں پھنسانے کی پوری تیاری کر چکاہے اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ روس اس چال کو کیسے ناکام بناتا ہے۔