سیاسی ایجنڈا

وسط مدتی قومی انتخابات کیلئے موزوں وقت کونسا ہوگا اور پاکستان میں بے قابو مہنگائی کی شرح کم کرنے اور فوری معاشی بہتری کیلئے اصلاحات کہاں سے شروع کی جائیں؟ صاف ظاہر ہے کہ انتخابات سے قبل اگر معاشی بہتری کا ہدف حاصل کر لیا جاتا ہے اور عام آدمی (ہم عوام) کو مہنگائی میں کمی کی صورت راحت (ریلیف) کا احساس بھی ہوتا ہے تو اِس سے مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے لئے انتخابی کامیابی زیادہ آسان ہو جائے گی لیکن بصورت دیگر یہی امکانی آسان ”زیادہ بڑی مشکل“ بھی ثابت ہو سکتی ہے!تحریک انصاف قبل از وقت اور فوری عام انتخابات کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے اور اپنے اِس مطالبے سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں    حکومت معاشی بہتری کی خواہاں ہے جبکہ سیاسی غیر یقینی کی صورتحال میں کبھی بھی معاشی استحکام نہیں آسکتا۔ موجودہ صورتحال میں وفاقی حکومت کیلئے سب سے اہم مسئلہ  یہ ہے کہ کسی بھی طرح ’تحریک انصاف‘ کے اسلام آباد مارچ کا راستہ روکا جائے۔
 دوسری طرف حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کو اِس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ پٹرول اور ڈیزل پر تحریک انصاف کی جانب سے دی گئی سبسڈی واپس لی جائے گی اور اِس یقین دہانی کا تذکرہ ’آئی ایم ایف‘ اجلاس کے بعد جاری کئے گئے بیان (پریس ریلیز) میں بھی ملتا ہے کہ پاکستان حکومت نے غیر مالی امدادی سبسڈی ختم کرنے کی حامی بھری ہے لیکن سبسڈی ختم نہیں کی گئی جس کا مطلب ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ کے ساتھ آئندہ مذاکرات (اٹھارہ مئی دوہزاربائیس) کسی بھی طرح آسان نہیں ہوں گے۔ پاکستان کی وفاقی کابینہ اراکین کا برطانیہ جا کر قومی امور پر غوروخوض کی بجائے اگر سرکاری اخراجات میں پچاس فیصد کمی لائی جائے اور سرکاری اداروں کے خسارے پر قابو پایا جائے تو پاکستان کو ”آئی ایم ایف“ سے کڑی شرائط پر قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
فی الوقت پاکستان کے ذخائر ساڑھے دس ارب ڈالر کے قریب ہیں جو دو ماہ کی قومی درآمدی ضروریات کیلئے بھی کافی نہیں رہے۔ اگر پاکستان ’آئی ایم ایف‘ سے علیحدگی اختیار کرتا ہے تو سعودی عرب اپنے تین ارب ڈالر واپس مانگ لے گا جس کے بعد پاکستان صرف ایک ماہ کی درآمدات کے قابل رہ جائے گا جبکہ قومی قرضوں اور اُن پر سود کی ادائیگی بھی ممکن نہیں رہے گی۔ مخلوط حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان کے آئندہ عام انتخابات مقررہ مدت (ڈیڑھ سال) کے بعد ہوں تاکہ وہ کم سے کم دو بجٹ دے سکیں۔
 پہلے بجٹ میں پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کیا جائے اور دوسرے بجٹ میں عوام کو ریلیف دے کر انتخابی کامیابی حاصل کی جائے لیکن اگر اکتوبر میں انتخابات ہوتے ہیں‘ جیسا کہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے تو حکومت کو بجٹ پیش کرنے کے فوراً بعد اسمبلیاں تحلیل کرنا ہوں گی لیکن اگر حکومت 2023ء تک باقی رہ جاتی ہے تو ایسی صورت میں پہلی کوشش معاشی استحکام ہی کی ہوگی لیکن چونکہ سیاسی استحکام ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تو اِس میں ”نگران حکومت (سیٹ اَپ)“ ہی کے ذریعے پٹرول و بجلی کی قیمتوں میں اِضافے جیسے سخت فیصلے کئے جا سکتے ہیں جس کے تین ماہ بعد نئے انتخابات ہوں۔ غیریقینی کے دور کا اختتام ضروری ہے۔