تاثر ہے کہ حکومت کے پاس مالی وسائل کی کمی ہے اور ایسی صورت میں امور مملکت چلانا ممکن نہیں۔ جب بھی سرمایہ دارانہ معیشت کسی بحران کا شکار ہوئی تو اس سے ہمیشہ انحراف پایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر جب مغربی معیشتیں عالمی مندی کی وجہ سے تباہ ہوئیں تو جان مینارڈ کینز کو اچانک پتہ چلا کہ معیشت کو مستحکم کرنے میں ریاست کا کردار ہے۔ کینز نے زور دے کر کہا کہ بحرانوں کے وقت ریاست کو مختلف منصوبے انجام دے کر‘ لوگوں کو مالی امداد (لیکویڈیٹی) کی فراہمی اور معیشت کو متحرک رکھنا چاہئے۔ اگر ریاست کو بیکار کام کرنے پڑیں تو بھی اس سے عوام کا پیسہ ضائع ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ تجویز دے رہے ہیں کہ بحرانوں کے وقت حکومت کو فیاضی کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ عوام کی مدد سے زیادہ حکومتیں ایسے نظام کو بچانے کی فکر میں ہوتی ہیں جن سے اُن کے اپنے مفادات جڑے ہوئے ہوں۔
کینز نے ریاستوں کو مشورہ دیا کہ وہ لوگوں کو زمین کا ایک ٹکڑا کھودنے اور اسے بھرنے اور اسے دوبارہ کھودنے کیلئے بھی ادائیگی کریں تاہم جدید سرمایہ داری کے پرجوش حامی ایسے نظام کو ختم کرنے کی بات نہیں کرتے جو انسانی فلاح و بہبود پر منافع کو ترجیح دیتا ہو۔ یہاں تک کہ شکاگو سکول کی طرح مارکیٹ پر مبنی نظام کے سخت حامی بھی جو حکومتوں کو کاروبار کے دائرے سے نکالنا چاہتے ہیں‘ حکمرانوں کو بحرانوں کے وقت نظام کو مکمل تباہی سے بچانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سرمایہ دار تیزی کے دوران ٹنوں پیسہ کمائیں لیکن ان کا مؤقف یہ بھی ہے کہ جب اس طرح کے پیسے کمانے والے مشکل میں ہوں تو حکومتوں کو مارکیٹ بچانے کیلئے عوامی فنڈز خرچ کرنے چاہئیں۔ اس طرح منافع کو انفرادی شکل دی جاتی ہے جبکہ معاشی نقصانات کو سماجی شکل ملتی ہے۔
سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے اِن اصولوں پر عمل کرتے ہوئے برطانیہ میں لیبر حکومت جس نے بہت پہلے قومیت کے نظریئے کو ترک کر دیا تھا نے سال دوہزارآٹھ کے بعد کئی نجی بینکوں اور اداروں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ معیشت کے معاملات میں ریاست کی عدم مداخلت پر پختہ یقین رکھنے والوں نے طوفان نہیں پیدا کیا۔ ان لوگوں کی طرف سے کوئی شور نہیں اٹھایا گیا جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ کاروبار چلانا نجی کمپنیوں اور افراد کا دائرہ کار ہے۔ ریاست کا رویہ بدل جاتا ہے بالخصوص جب عوام کیلئے سستے مکانات اور ریلیف دینے کی بات آتی ہے‘ جب غریبوں کو مفت معالجے کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور جب ہزاروں بیروزگاروں کے لئے روزی روٹی کی فراہمی کی بات ہوتی ہے تو حکومت اور مالیاتی اداروں کے رویئے بدل جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف نقصان ہی نقصان دکھائی دینے لگتا ہے۔
ریاستوں میں مالی اعانت اور وسائل کی کمی ہے۔ اگر یہ تاریخی طور پر سچ ہے تو اس سوال کا جواب کون دے گا کہ برطانیہ میں کس کی رقم ان غلام مالکان کو معاوضہ دینے کیلئے استعمال کی گئی تھی جنہوں نے افریقیوں کو یورپی اور شمالی امریکہ کی غلام منڈیوں میں لانے اور انہیں فروخت کرنے کو بے دردی سے دبایا تھا۔ کیا یہ عوامی پیسہ تھا یا ان کے ساتھی غلام مالکان کی طرف سے فیاضانہ عطیات تھے؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگوں کے فنڈز تھے جو خرچ کئے گئے تھے۔
امریکہ وہ ریاست تھی جس نے سویلین بنیادی ڈھانچہ تخلیق کیا اور مختلف کاروباروں کو ترقی دینے میں اربوں ڈالر خرچ کئے۔ صرف اُن اداروں کو نجی سرمایہ داروں کے حوالے کیا گیا جنہوں نے بھاری منافع حاصل کیا۔ یہ سرکاری شعبہ تھا جس نے عوام کے پیسوں سے جی پی ایس سسٹم‘ سپر کمپیوٹر‘ سمارٹ فونز اور جدید دور کے کم از کم سات دیگر ٹاپ ڈیوائسز ایجاد کیں۔ یہ عوامی پیسہ ہی ہے جو نجی اور سرکاری یونیورسٹیوں میں تحقیق کیلئے فنڈ فراہم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کوویڈ ویکسین کیلئے عوامی فنڈنگ نہ ہوتی تو نجی کمپنیاں اس قدر جلد عالمی وبا پر قابو نہ پا سکتیں۔ دنیا بھر کی ریاستیں کاروبار اور سرمایہ کار مہنگے ترین منصوبے انجام دے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر زیادہ تر خلائی مہمات اور تحقیق بڑی حد تک عوام کے پیسوں سے مالی اعانت حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح امریکی ریاست ہر سال صحت کے بجٹ میں چار کھرب ڈالر سے زائد رقم ڈالا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ دفاع اور دیگر مقاصد کیلئے ایک کھرب ڈالر کے قریب رقم مختص کی جاتی ہے۔ امریکی حکومت نے 1940ء سے اب تک فوجی مہمات‘ دفاعی اخراجات اور جوہری ہتھیاروں پر چوبیس کھرب ڈالر سے زائد خرچ کئے ہیں۔ یورپی ممالک نے دفاعی اخراجات اور سویلین بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں کھربوں ڈالر بھی ڈالے ہیں۔ اس رقم کا زیادہ تر حصہ عوام سے حاصل کردہ وسائل (محصولات) سے ادا کیا جاتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالستار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)