ملازمت کے سلسلے میں ہم ایک عرصے تک خانہ بدوش رہے اور جہاں ہمارا دانہ پانی لکھا تھا وہاں پہنچتے رہے۔ اسی دشت نوردی کے دوران کئی بہاریں آئیں اور کئی خزانیں بیت گئیں۔ اسی طرح عید بھی آئی اور شب برات بھی اپنوں سے دور گزر گئی۔ ملازمت کا سلسلہ جو ایک دن رُکنا تھا رُک گیا لیکن شوق آوارگی کا جنون سر سے نہیں اُترا اور پاؤں میں چکر اب بھی باقی ہے۔ لہٰذا اس دفعہ عید ہم نے برطانیہ کے شہر مانچسٹرمیں گزاری۔ اچھا ہوا اس سال بیرون ملک پاکستانیوں نے ایک دن عید منائی۔ اس وقت برطانیہ میں پینتیس لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں۔ یہاں دو ہزار کے قریب مساجد ہیں۔ان مساجد میں تین تین دفعہ نماز عید کے اجتماعات ہوتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نماز پڑھنے کا موقع فراہم کیا جائے لیکن پھر بھی جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ اس لئے پارکوں میں عید کے اجتماعات کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
مانچسٹر میں سب سے بڑا اجتماع پلاٹ فیلڈ پارک میں ہوا جہاں دس سے پندرہ ہزار افراد نے نماز عید ادا کی۔ اسی طرح برطانیہ کے دوسرے شہروں میں بھی عید کی نماز پڑھنے کیلئے مسلمانوں نے پارکوں کا رخ کیا۔ہم عید کی نماز پڑھنے ایکلز علاقے کے مسجد گئے۔ یہاں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان تشریف لائے تھے۔ پاکستانی بھی تھے۔ ہم نے ایک نوجوان سے پوچھا تو اس نے کہا وہ گنی بساؤ کا ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ نائجیریا سے تعلق رکھتا ہے۔ عرب ممالک کے باشندے بھی تھے جو اپنے روایتی لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ مسجد دو منزلہ تھی اور ایک حصہ خواتین کیلئے مختص کیا گیا تھا۔ کئی لوگ بچے ساتھ لائے تھے جن میں کم سن بچے بھی شامل تھے۔ زنانہ حصے سے چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں آتی رہیں۔
ہمارے ساتھ کئی چھوٹے بچے اپنے والدین کے ساتھ کھڑے تھے۔ نماز شروع ہونے سے قبل امام صاحب نے فرمایا کہ آج نماز کی امامت ایک نوجوان محمد علی کریں گے جو ماہ رمضان میں تراویح بھی پڑھا چکے ہیں۔ بچے کی خود اعتمادی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ہم نے اتنے چھوٹے بچے کو کبھی نماز پڑھاتے نہیں دیکھا تھا۔ نماز کے بعد ہم امام صاحب کے پاس گئے پہلے ان کو عید کی مبارکباد دی اور پھر کمسن امام سے ملنے کی خواہش کی لیکن وہ موجود نہیں تھے۔ امام صاحب نے ایک صاحب کی طرف اشارہ کیا کہ یہ اس کا والد ہے بچہ شاید واش روم گیا ہے۔ روایتی عربی لباس زیب تن کئے یہ صاحب ملک شام سے تشریف لائے تھے۔
خوبصورت اور ایک زمانے میں انتہائی پرامن ملک شام کے دگرگوں حالات کی وجہ سے کوئی دس ہزار افراد یہاں آگئے ہیں جن میں چار ہزار سے زائد کا یہاں پناہ لینے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ ہم نے شامی سے پوچھا، محمد علی کی عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا دس سال کا ہونے کو ہے۔ ہم نے کہا نام کیسے رکھا۔محمد علی باشا۔ یہ مصر کے آخری بادشاہ شاہ فاروق کے دادا کے دادا تھے جو البانوی نژاد تھے اور مصر میں اپنی حکومت قائم کر چکے تھے۔ باشا کا مجسمہ اب بھی قاہرہ میں دریائے نیل کے کنارے ایستادہ ہے۔ اس کے علاوہ اہل مصر کسی کو عزت سے مخاطب کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’یا باشا‘۔ عثمانی دور میں اہم عہدیدار کو بھی باشا کہا جاتا تھا۔ ہمارے محمد علی باشا کہنے پر کمسن امام کے والد نے مکا ہوا میں لہرا کر کہا’محمد علی کلے‘۔ اس کا اشارہ امریکی مسلمان باکسنگ چیمپئن کی طرف تھا۔ ہم مسجد سے باہر آئے۔ یہ دوسری نماز تھی۔ تیسری نماز کی تیاری ہونی تھی۔