چھوٹی عید کی بڑی خوشیوں میں سے ایک خوشی یہ ہے کہ اس عیدپرخیبرپختونخوا میں سلسلہ نقشبندیہ کے ولی کامل مولانا محمدمُستجاب ؒ کی سوانح عمری زیورطبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آگئی یونیورسٹی بک ایجنسی خیبربازار کے اندر تازہ ترین کتابوں کے شیلف میں انوارمُستجاب خوب صورت جلد بندی میں آنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔یہ صرف سوانح عمری نہیں اولیاء کے تذکرے کا ایک باب بھی ہے مفتی کفایت اللہ رحمتہ اللہ،مولانا سراج الدینؒ،مولانا فضل علی قریشی ؒ اور مولانا عبدالغفور مدنی ؒ سے لیکر مولانا محمد مُستجابؒ تک اولیاء کا ایسا سلسلہ ہے جو 33ویں سلسلے میں آقائے نامدار محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جاپہنچتا ہے‘ اس سلسلے کے جونامور بزرگ برصغیرپاک وہند میں ہو گذرے ہیں‘ ان میں حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف
ثانی ؒ اورمرزا مظہرجان جانان ؒ کے نام خاص وعام کی زبان پرہیں۔پشاور یونیورسٹی کے نامور محقق پروفیسر اسرارالدین نے پیرطریقت مولانا محمدمُستجاب ؒ کی زندگی،ان کی جدوجہد، علمی‘ اصلاحی اور تبلیغی خدمات پرعقیدت میں گنُدھے ہوئے اسلوب میں سادہ اور سہل زبان میں قلم اُٹھاتے ہوئے تحقیق اور تصنیف وتالیف کا حق ادا کیا ہے مولانا محمد مستجابؒ1885ء میں چترال کی وادی اویر میں پیدا ہوئے،فنون کی کتابیں صوبے کے مختلف مدارس میں پڑھنے کے بعد دہلی میں مفتی کفایت اللہؒ کے مدرسہ امینیہ سے 1913ء میں سندحاصل کی آپ نے6سال مدرسہ امینیہ میں گذارے،یہاں جودبا تورغرکے مولانا عبدالغفور عباسی مدنی ؒ آپ کے ہم مکتب تھے،انہی کی تحریک پرسلسلہ نقشبندیہ کے پیرکامل
حضرت مولانا فضل علی قریشی ؒ کے دست حق پرست پربعیت ہوکر خلیفہ مجاز کا درجہ حاصل کیا،1935میں ان کی وفات کے بعداپنے پیر بھائی مولانا عبدالغفور عباسی مدنی کے ہاتھ پر بعیت ہوکر ایک بارپھر خرقہ خلافت پایا‘1913ء سے لیکر 1984تک کم وبیش 71 سال خلق خدا کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا۔آپ کنویں کی طرح پیاسے کو اپنی طرف نہیں بلاتے تھے بلکہ جوئے روان بن کرپیاسے تک پہنچتے تھے اس کو پیاس کا احساس دلاتے تھے پھر جی بھر کر سیراب کرتے تھے پشاور میں نشترآباد کے حاجی عبدالعزیز کے ہاں آپ کا قیام ہوتا،ڈاک اسماعیل خیل نوشہرہ کے پیررحمت کریمؒ آپ کے ساتھی تھے،لاہور میں حاجی محمدامین آپ کی میزبانی کا شرف حاصل کرتے کراچی میں مفتی محمد شفیعؒ،مولانا ظاہرشاہ اور حاجی نادر خان کے ہاں آپ کاقیام ہوتا،حج اورعمرہ کے اسفار پرآتے جاتے سال کے5یا6مہینے ملک کے اندر یا حجاز مقدس میں گذارتے بقیہ سات یا چھ مہینے چترال کے اندر اصلاحی اور تبلیغی دوروں کیلئے وقف
کرتے تھے،انوار ِ مُستجاب میں حضرت کی جو کہانی390صفحوں میں لکھی گئی ہے اس کا خلاصہ چند جملوں میں سمیٹاجائے تواس کی ابتدا علم کی تلاش وجستجو میں بے قراری سے ہوتی ہے گاؤں سے دودوست علم کی تلاش میں نکلے ایک دوست نے راستے میں میلہ دیکھا اورآگے جانے سے انکار کیا،مولانا مستجاب کو آگے جاکر نام کے مصداق مستجاب الدعوات بننا تھا،آگے بڑھے پہلے ریاست چترال اور پورے صوبے میں مخصوص علماء کے ہاں مخصوص کتابوں کی تعلیم گھر پریامساجد میں ہوتی تھی آپ نے چترال کے اندر4سال گذارے پھریارحسین،چارباغ اور پشاور سے ہوتے ہوئے دہلی پہنچ گئے دہلی سے واپسی کے وقت مفتی کفایت اللہ نے وصیت کی کہ کھیتی باڑی سے رزق حلال کمانے کی فکر کرو،آپ نے گاؤں میں کھیتی باڑی کی اور گھر پر مدرسہ کھولا۔اویر مولوی کے نام سے مشہور ہوئے طلباء اور متلاشیان حق کا تانتا بندھ گیا تو اویر کے دشوار گذار راستے رکاوٹ بنے آپ نے مرکزی شاہراہ پراویون میں زمین خریدی،دودھ کیلئے بکری پالی چھوٹا سا گھربنایا اور مسجد کومدرسہ قرار د یا جہاں فنون سے لیکر دورہ حدیث تک تمام متداول کتابیں پڑھائی جاتی تھیں ساتھ ساتھ رشد و ہدایت کاسلسلہ جاری رہا۔99سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی اور اویون میں مدفون ہوئے کتاب میں مولانا عبدالرحیم،مولانا فیاض الدین‘ڈاکٹر فدا محمد‘ڈاکٹر محمد حامد اورقاری فیض اللہ چترالی کی جامع تقریضات کو جگہ دی گئی ہے کتاب کو مولانا عزیز احمد خانقاہ عزیزیہ اشرفیہ لونڈ خوڑ مردان نے آب وتاب کے ساتھ شائع کیا ہے۔