تنقیدی روش

کیا سیاسی جماعتوں کا کردار صرف اُور صرف الزام تراشی ہی ہوتا ہے؟ اِس سوال کے تناظر میں قومی سیاسی منظرنامے کو دیکھا جائے تو ایک عجیب روش چل نکلی ہے کہ کئی افراد اور گروہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ اُن کے اپنے مفادات پر زد پڑ رہی ہے تو وہ فوراً قومی اداروں بالخصوص عسکری قیادت کی جانبداری اُور عسکری ادارے کے سیاست میں ملوث ہونے کا ذکر کرتے ہیں اِس صورتحال کا زیادہ سنجیدہ اُور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن بنا سوچے سمجھے ایسی بحث میں کود پڑتے ہیں اُور سوشل میڈیا پر اظہار خیال کرنے لگتے ہیں جیسے ناقابل تردید حقائق اُن کی آنکھوں کے سامنے ہوں۔ تحریک ِعدم اعتماد اور اس کی کامیابی کے بعد مختلف سیاستدانوں کی جانب سے مسلح افواج پر تنقید کی جا رہی ہے اور پھر سوشل میڈیا وسائل (بالخصوص ٹوئٹر‘ فیس بک اُور یوٹیوب) پر پاک فوج کے خلاف مہمات (ٹرینڈز) چلائے جا رہے ہیں۔ یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ مذکورہ مہمات میں تہذیب و شائستگی کی ہر قدر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسی زبان استعمال کی جا رہی ہے جو کسی بھی طور قابل قبول قرار نہیں دی جاسکتی۔ اس سب کے باوجود مسلح افواج نے باربار کسی ردعمل کا اظہار کرنے کی بجائے صرف یہی کہا کہ مسلح افواج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا انہیں سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹا جائے۔ مزید یہ بھی کہاکہ غیر مصدقہ‘ ہتک آمیز اوراشتعال انگیز بیانات انتہائی نقصان دہ ہیں اُور پاک فوج توقع کرتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اُور سیاسی کارکن قانون کی پاسداری کرینگے یہ پہلا موقع نہیں کہ پاک فوج کے ترجمان ادارے کی جانب سے اس نوعیت کا کوئی بیان جاری کیا گیا ہو‘ پاک فوج کی جانب سے نقاد سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا ہے کہ وہ بطور سیاسی جماعت یا بطور شخصیت اگر پاک فوج کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں تو ان کے ازالے کے لئے ملک کے اندر مختلف پلیٹ فارمز موجود ہیں جہاں اس حوالے سے بات ہوسکتی ہے لیکن مسلح افواج کو اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے تنقید کا نشانہ بنانا اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف توہین آمیز مہمات چلانا کسی بھی طور قبول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس طرح کی مہمات سے پاکستان مخالف قوتیں فائدہ اُٹھاتی ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان داخلی طور پر عدم استحکام سے دوچار رہے اور ملک کی منظم و پیشہ ور مسلح افواج اور پاکستانی عوام کے درمیان خلیج پیدا کی جائے‘اس زاویئے سے موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو جو بھی مسلح افواج کے خلاف ایسی کوئی مہم چلا رہا ہے یا چلانے کیلئے پس پردہ کردار ادا کررہا ہے وہ درحقیقت ریاست کا دشمن ہے‘ ضرورت یہ ہے کہ عوامی اجتماعات میں اُور بالخصوص سیاسی مقاصد کی خاطر اداروں کو ملوث نہ کیا جائے بالخصوص پاک فوج کے ادارے کو ایسی کسی بھی مہم میں گھسیٹنا جمہوریت کے حال و مستقبل دونوں ہی کے مفاد میں نہیں ہے۔ آئین و قانون مقدم ہیں جن کا ہر شہری کو پابند ہونا چاہئے کسی کو بھی ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہئے جس سے ریاست کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ اداروں کے خلاف ’منفی پراپیگنڈے‘ سے شکوک و شبہات تو پیدا ہوسکتے ہیں لیکن حقائق نہیں بدل سکتے اُور سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو بالخصوص یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ان کا وجود اِس ریاست اور سیاسی نظام ہی کی وجہ سے قائم ہے۔